یہ ایک تاریخ ساز اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پیغمبر آخر و اعظم، امام الانبیاء، سیّد المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ،احمدِ مجتبیٰﷺ کے ظہورِ قُدسی سے اِک عالمِ نو طلوع ہوا، انسانیت کی صبحِ سعادت کا آغاز ہوا اور ایک ایسا انقلاب رُونما ہوا، جس نے انسانی عزّت و وقار بحال کرکے دنیا میں امن و سلامتی کو عام کیا، تو انسانیت کو توحید کے نور سے منوّر کرکے کفر و شرک، ظلمت و جہالت کے اندھیروں، تاریکیوں کو دُور کردیا۔
مغرب کا نام ور مؤرخ، جان ولیم ڈریپر یورپ کی ذہنی و علمی تاریخ کے ضمن میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتا ہے’’ جسٹی نین کی موت کے چار سال بعد سرزمینِ عرب کے شہر مکّے میں وہ ہستی ؐپیدا ہوئی، جس نے نسلِ انسانی پر سب سے زیادہ اثر ڈالا‘‘۔ ان تمام احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ پوری دنیائے انسانیت بلاتفریقِ مذہب و ملّت، آپؐ کو اپنا ہادی و رہبر، نجات دہندہ اور محسن تسلیم کرے۔ آپؐ کے ادب و احترام اور عزّت و توقیر کے تقاضے پورے کرے۔ آپؐ کی عظمت و ناموس اور شرف و بزرگی کو سمجھے کہ آپؐ انسانیت کے محسنِ اعظم ہیں۔ یہ انسانیت پر ایک ایسا قرض ہے، جو اس پر ہمیشہ رہے گا۔
یہ بھی ایک ابدی حقیقت ہے کہ آپؐ کی سب سے نمایاں خصوصیت و امتیاز آپؐ کا امام الانبیاء، سیّد المرسلین اور خاتم النّبیین ہونا ہے۔ آپؐ کی دعوت، آپؐ کا پیغام اور دینِ اسلام آفاقی اور کائناتی ہیں۔ آپؐ بنی نوعِ آدم اور پورے عالمِ انس و جن کے لیے ہادیٔ اعظم اور خاتم الانبیاء بنا کر مبعوث فرمائے گئے۔ آپؐ پر دین کی تکمیل کردی گئی، اب پوری انسانیت آپؐ کی امّت اور آپؐ پوری انسانیت کے بشیر و نذیر اور نجات دہندہ ہیں۔
قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا’’اور ہم نے آپؐ کو تمام انسانوں کے لیے خوش خبری سُنانے والا اور آگاہ کرنے والا بناکر بھیجا ہے‘‘۔ (سورۂ سبا28)آپؐ کی نبوّت و رسالت کی آفاقیت اور عالم گیریت کے حوالے سے ارشادِ ربّانی ہے’’کہہ دیجیے، اے لوگو، مَیں تم سب کی طرف اللہ کا پیغام دے کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ (سورۃ الاعراف؍ 158) ایک اور مقام پر فرمایا گیا’’برکت والا ہے وہ (اللہ) جس نے حق و باطل میں امتیاز کرنے والی کتاب اپنے بندے حضرت محمّدؐ پر نازل کی تاکہ وہ دنیا جہاں کے لیے باخبر اور آگاہ کرنے والا ہو‘‘۔ (سورۃ الفرقان؍1) بے شمار احادیث سے اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے کہ حضرت محمّد ﷺ پوری انسانیت کے لیے نبی بناکر مبعوث فرمائے گئے۔
آپؐ کا ارشادِ گرامی ہے ’’مَیں کالے اور گورے (مشرق و مغرب) تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں‘‘۔ (احمد بن حنبل، المسند 416/4)ایک موقعے پر آپؐ نے اپنی پیغمبرانہ خصوصیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا’’مَیں تمام انسانوں کی طرف (نبی بناکر) بھیجا گیا ہوں، حالاں کہ مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے، وہ خاص اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے‘‘۔(حوالہ سابقہ) آپؐ دعائے خلیلؑ، تمنائے کلیمؑ اور نوید عیسیٰؑ ہیں۔حضرت محمّدﷺ وہ عظیم المرتبت پیغمبر ہیں، جن کی نبوّت، عزّت و توقیر، ایمان و اعانت کا اللہ نے تمام انبیائے کرامؑ سے عہد لیا تھا۔
اس لحاظ سے تمام الہامی مذاہب اور پوری انسانیت کا یہ دینی اور انسانی فریضہ ہے کہ وہ آپؐ کی نبوّت کا اعتراف کریں۔ آپؐ کی عزّت و توقیر اور ادب و احترام کو محلوظ رکھیں۔ ارشادِ ربّانی ہے’’اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور دانائی عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی نبی (حضرت محمّدؐ) آئیں، جو تمہاری کتاب کی تصدیق کریں، تو تمہیں ضرور ان پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور ان کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ کیا تم نے اس کا اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمّہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا)، تو اُنہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا۔ (اللہ نے) فرمایا کہ تم اس عہد و پیمان کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں‘‘۔ (سورۂ آل عمران؍ 81)اللہ تعالیٰ سے یہ عہد تمام انبیائے کرامؑ نے کیا تھا، نتیجے کے طور پر ہر نبی کی امّت کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ اس عہد کی توثیق و تکمیل کرے، بالخصوص یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اس ابدی صداقت کو تسلیم کرتے ہوئے آپؐ کی نبوّت پر ایمان لائیں۔
تورات اور انجیل میں رسول اللہﷺ کا بطورِ خاص تذکرہ کرکے اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ ان میں سے جو رسول اللہﷺ کی نبوّت پر ایمان لاتے، آپؐ کی مدد اور ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہیں، وہی درحقیقت فلاح پانے والے ہیں۔ ارشادِ ربّانی ہے’’وہ جو (محمّد رسول اللہﷺ) کی جو نبی امّی ہیں، پیروی کرتے ہیں، جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔
وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے اور بُرے کاموں سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سَر) پر (اور گلے میں) تھے، اُتارتے ہیں، تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور اُنہیں مدد دی اورجو نُور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے، اس کی پیروی کرتے ہیں، وہی مُراد پانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف؍ 157,156)
علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں’’ان آیات میں صاف ظاہر کردیا گیا کہ گزشتہ مذاہب کے پیروئوں کے لیے محمّد رسول اللہﷺ پر ایمان لانا اِس لیے ضروری ہے کہ وہ دینِ خالص جو انسانی تصرّفات اور آمیزشوں سے مکدّر ہوگیا تھا، وہ سابقہ آسمانی کُتب کی پیش گوئیوں کے مطابق آپؐ کے ذریعے پھر سے نِکھارا گیا۔
’’عقیدۂ ختمِ نبوت‘‘ دین کی اساس اور بنیاد ہے، اس پر ایمان دین کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے
نیز، آپؐ عالم گیر پیغمبر بناکر مبعوث فرمائے گئے، اس لیے ہدایتِ تامّہ، نبوّتِ عمومی، نجاتِ کامل اور فلاحِ عام اب صرف وحیِ محمدیؐ کے اندر محدود ہے۔‘‘(سیّد سلیمان ندوی/سیرت النبیؐ 403/4)قرآنِ پاک کے علاوہ کسی آسمانی صحیفے نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مکمل ہے اور اُس کے ذریعے دین تکمیل کو پہنچ گیا،بلکہ گزشتہ آسمانی مذاہب میں سے ہر ایک نے یہی کہا کہ ایک نبی(حضرت محمدﷺ) آئیں گے، جو دین کی تکمیل کریں گے، اس کا تذکرہ تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہے۔ ( تورات / استثناء۔ 18، 19، انجیل/ یوحنا ۔ 14، 26 اور یوحنا 8/16 ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں)۔ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ ختمی مرتبت، محسنِ انسانیت، حضرت محمدﷺ کی نبوّت، آپؐ کا پیغام اور آپؐ کا دین عالم گیر ہے۔ تمام الہامی مذاہب کے پیروکاروں پر بطور خاص آپؐ پر ایمان لانا، آپؐ کی عزّت و توقیر اور ادب و احترام فرض ہے۔
آپؐ کی تعلیمات اور آپؐ کی عظیم المرتبت شخصیّت پوری انسانیت کی عالمی اور مشترکہ میراث ہیں۔ تمام انبیائے کرامؑ نے اپنی اُمّتوں کو آپؐ کی عزّت و عظمت، ادب و احترام، اعانت و نصرت اور آپؐ کی نبوّت پر ایمان لانے کی تعلیم دی۔
یہ درحقیقت اللہ عزّوجل کا تمام انبیائے کرامؑ سے اور انبیائے کرامؑ کا اپنی اُمّتوں سے وہ میثاق تھا، جسے تورات، انجیل اور قرآنِ کریم نے پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں، دیگر مذاہب، جنہیں غیر الہامی مذاہب سے تعبیر کیا جاتا ہے، اُن کی مقدّس کتابیں بھی ایک نجات دہندہ کی آمد اور ایک عظیم المرتبت ہستی کے ظہورِ قدسی کے متعلق شہادتیں دیتی رہی ہیں۔ یہ تاریخی حقائق آج بھی اُن کی مقدّس کتابوں میں موجود ہیں۔
علّامہ نبہانیؒ فرماتے ہیں’’اوجب علینا تعظیمہ وتوقیرہ ونصرتہ ومحبتہ والادب معہ‘‘(اسمٰعیل بن یوسف النبہانی/جواہر البحارفی فضائل النبیؐ المختار/251/3 مطبوعہ قاہرہ)یعنی’’اللہ نے ہم (مسلمانوں) پر رسول اللہﷺ کی عزّت و توقیر، تعظیم و تکریم،اعانت و نصرت، محبّت اور ادب و احترام کو لازم قرار دیا ہے۔‘‘علّامہ شیخ اسمٰعیل حنفیؒ تحریر فرماتے ہیں’’انّہ یجب علی الامّۃ ان یُّعظّموہ علیہ الصّلاۃ والسلام و یوقّروہ فی جمیع الاحوال فی حال حیاتہ وبعد وفاتہ،فانّہ بقدر ازدیاد تعظیمہ وتوقیرہ فی القلوب یزدادُ نُور الایمان‘‘(تفسیر روح البیان 216/7، مکتبہ اسلامیہ،کوئٹہ)’’اُمّت پر واجب ہے کہ وہ رسولِ اکرمﷺ کی تعظیم و توقیر کو بجالائے، تمام حالات میں آپؐ کی حیاتِ طیّبہ میں بھی اور آپؐ کے وصال کے بعد بھی۔
کیوں کہ دِلوں میں جس قدر رسول اللہﷺ کی تعظیم و توقیر میں اضافہ ہوگا، اتنا ہی نورِ ایمان میں اضافہ ہوگا۔‘‘امام ابن تیمیہؒ اپنی معرکۃ الآراء کتاب’’ الصّارمُ المسلُول علیٰ شاتم الرّسول‘‘ میں رقم طراز ہیں’’فقیام المدح و الثناء علیہ و التعظیم و التوقیرلہ،قیام الدین کلّہ،وسقوط ذٰلک سقوط الدّین کلّہ‘‘۔(ص211،مطبوعہ قاہرہ)’’آپؐ ہی وہ عظیم المرتبت پیغمبر اور نجات دہندہ و محسنِ انسانیت ہیں، جن کی بدولت انسانیت کو دین ودنیا کی فلاح اور آخرت میں نجات کی راہ ملی۔ ‘‘
آپؐ کی شخصی عظمت پر مسلم ہی نہیں، دنیا بھر کے مشاہیر اور غیر مسلم دانش ور بھی متّحد و متّفق ہیں۔ رسولِ اکرمﷺ ہی پوری انسانیت میں سب سے برتر، سب سے زیادہ لائقِ تکریم ہیں، یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے، جس کا اعتراف غیر مسلم دانش وروں کو بھی ہے۔ مشہور ہندو شاعر، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کیا خُوب کہتے ہیں ؎عشق ہوجائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں…صرف مسلم کا محمّدؐ پہ اجارہ تو نہیں۔‘‘شیش چندر سکسینہ کہتے ہیں؎یہ ذاتِ مقدّس تو ہر انساں کو ہے محبوب…مسلم ہی نہیں وابستۂ دامانِ محمدؐ۔‘‘معروف امریکی دانش ور، ڈاکٹر میخائیل ایچ ہارٹ اور اس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی نے دنیا کی مشہور و معروف شخصیات کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا، جس کے بعد اُنہوں نے ’’The 100‘‘ نامی کتاب لکھی۔
اُن کے بقول اس کتاب میں انسانی تاریخ کی ایک سو اعلیٰ ترین شخصیات کے حالات درج ہیں، جنہوں نے اُن کے نزدیک انسانی تاریخ پر نمایاں ترین اثرات ڈالے۔ اس کتاب میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمّد ؐکے تذکرے کو پہلے نمبر پر رکھا گیا۔
موصوف رقم طراز ہے’’پوری انسانی تاریخ میں محمّدؐ وہ واحد شخصیّت ہیں، جو دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے غیر معمولی طور پر کام یاب و کام ران اور سرفراز ٹھہرے۔‘‘فرانسیسی محقّق اور دانش ور، ڈاکٹر گستا ولی بان ’’تمدّنِ عرب‘‘ میں لکھتا ہے’’اگر اشخاص کی زندگی، بُزرگی اور عظمت کا اندازہ اُن کے کارناموں سے لگایا جاسکتا ہے، تو ہم لکھیں گے کہ حضرت محمّدؐ انسانی تاریخ میں سب سے عظیم شخصیّت گزرے ہیں۔‘‘
ہندو سیرت نگار، سوامی لکشمن پرشاد اپنی کتاب ’’عرب کا چاندؐ‘‘ میں رقم طراز ہیں’’دنیا کی اُن جلیل القدر ہستیوں میں، جن کے اسمائے گرامی ہاتھ کی اُنگلیوں پر شمار کیے جاسکتے ہیں، سرورِ کائنات، حضرت محمدﷺ کو کئی اعتبار سے ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔‘‘کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کرنے والی دنیا کی مشہور کمپنی ’’Micro Soft‘‘ نے اکیسویں صدی عیسوی کے آغاز پر پوری دنیا سے یہ سوال کیا کہ ’’دنیا کی سب سے عظیم ترین شخصیّت کون ہے؟ جس نے اپنے فِکر و عمل سے انسانی تاریخ اور انسانی زندگی پر گہرے نقوش مرتّب کیے اور دنیائے انسانیت اس سے متاثر ہُوئی؟‘‘
اس کے جواب میں دنیا کے بیش تر افراد نے رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی کو انسانی تاریخ کی سب سے عظیم المرتبت شخصیت قرار دیا۔ رائے دہندگان میں بیش تر افراد کا تعلّق مغربی دنیا سے تھا۔اس لحاظ سے یہ کہنا بالکل دُرست ہے کہ رسولِ اکرمﷺ تمام انبیائے کرامؑ، آسمانی کُتب کی شہادت، یہودیت اور عیسائیت، دنیا کے دیگر مذاہب، تمام انسانی معاشروں اور مہذّب اقوام کے نزدیک سب سے عظیم المرتبت ہستی ہیں۔
دنیائے انسانیت پر آپؐ کے سب سے زیادہ احسانات ہیں، آپؐ خاتم الانبیاء، سیّدالمرسلین اور محسنِ انسانیت ہیں۔ ان تمام حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ مشرق و مغرب، تمام مذاہب اور پوری انسانیت آپؐ کی عزّت و توقیر، ادب و احترام، عظمت و ناموس اور شان و وقار کو ملحوظ رکھے۔ آپؐ کی شان میں معمولی گستاخی بھی ناقابلِ معافی جرم ہے۔
اہلِ ایمان کے دِلوں کی دھڑکن اور ہر سانس کی آمد رسولِ اکرمﷺ کی محبّت، آپؐ کی عظمت اور آپؐ کے ذکر سے مشروط ہے۔ آپؐ کی عزّت و ناموس کے تحفّظ کے لیے گناہ گار سے گناہ گار فرد بھی اپنی متاعِ حیات کو قربان کرنا باعثِ فخر و سعادت سمجھتا ہے۔
اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر شانِ رسالتؐ میں گستاخی اسلام، مُسلم اُمّہ اور مہذّب انسانوں کی دل آزاری انتہائی گھنائونا اقدام اور حد درجہ ناقابلِ برداشت ہے۔ یہ دین و دنیا دونوں کے آئین سے غدّاری، پروردگارِ عالم کے میثاق سے انحراف، دنیا میں بسنے والے ایک ارب 90 کروڑ مسلمانوں اور دنیا کے مہذّب انسانوں کے عقیدے، مذہب اور پوری انسانیت کی توہین ہے۔ جس کا کوئی جواز اور کوئی عذر قبول نہیں کیا جاسکتا۔یہ ایسا بدترین جرم ہے، جس کی تائید اور اعانت بھی بدترین جرم سے کم نہیں۔