• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈیمنشیا کے مزید 2 بڑے اسباب دریافت کرلئے گئے، تعداد 14 ہوگئی

لندن (پی اے) ڈیمنشیا کے مزید 2بڑے اسباب دریافت کرلئے گئے، اس طرح ڈیمنشیا کے اسباب کی معلوم تعداد 14ہوگئی۔ ڈیمنشیا کے اسباب کا پتہ چلانے والی رپورٹ کے مطابق نظر کی کمزوری اور کولیسٹرول میں اضافہ بھی ڈیمنشیا کا سبب بن سکتا ہے یا اسے بھی ڈیمنشیا کی علامت تصور کیا جاسکتا ہے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈیمنشیا کے اب تک جو 14اسباب معلوم ہوئے ہیں، ان میں کمی کردی جائے یا ان کا خاتمہ کردیا جائے تو دنیا میں ڈیمنشیا کے مریضوں کی تعداد نصف رہ جائے گی۔ لانسیٹ کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اسباب کو دور کرنے کی کوشش کرنے سے درمیانی عمر کے لوگوں اور غریب ممالک کو زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ رپورٹ کے مطابق 2050تک ڈیمنشیا کے مریضوں کی تعداد 153ملین تک پہنچ سکتی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیمنشیا کے 45فیصد خطرات پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور اس طرح اس مرض کے خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بارے میں اقدامات کسی وقت بھی شروع کئے جاسکتے ہیں۔ یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر گل لیونگسٹن کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو طرز زندگی کو صحت مندانہ بنانے کیلئے عدم مساوات کو دور کرنا چاہئے۔ ریسرچرز نے اس حوالے سے حکومتوں کیلئے سفارشات کی ایک فہرست تیار کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قوت سماعت سے محروم لوگوں کو سننے کا آلہ فراہم کئے جانے کو یقینی بنانا چاہئے، تمام لوگوں کیلئے بہتر تعلیم کا انتظام کیا جائے، سگریٹ نوشی ترک کرنے میں لوگوں کی مدد کی جائے، ورزش اور کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، 40 سال کی عمر کے بعد بلڈ پریشر پر کنٹرول کیا جائے کولیسٹرول میں اضافے کا علاج کیاجائے، موٹاپے کا جتنی جلد ممکن ہو علاج کرایا جائے، بہت زیادہ شراب پینے کی عادت میں کمی کی جائے، لوگوں کو تنہائی کاشکار ہونے سے بچایا جائے، آنکھوں میں تکالیف کا علاج کیا جائے اور جن لوگوں کو ضرورت ہو انھیں چشمہ دیا جائے، لوگوں کو ہوا میں موجود آلودگی سے بچایا جائے ایک تخمینے کے مطابق قوت سماعت سے محرومی اور کولیسٹرول میں اضافہ ڈیمنشیا کی بیشتر قابل علاج صورتوں کا بنیادی سبب ہوتے ہیں، سماجی تنہائی اور نظر کی کمزوری آخری عمر میں ڈیمنشیا کا بڑا سبب ہوتی ہیں۔  ایڈنبرا یونیورسٹی کے پروفیسر تارا اسپائرز جونز کا کہنا ہے کہ اس ریسرچ کا اگرچہ ڈیمنشیا سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ صحت مندانہ طرز زندگی سے ذہنی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے ڈیمنشیا سے بچائو ہوتا ہے۔ الزائمر ریسرچ یوکےکی سمنتھا بین ہیم ہرمٹز کا نے اس رپورٹ کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈیمنشیا آخری عمر کی بیماری ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ جہاں تک ڈیمنشیا سے نظر کی کمزوری کا تعلق ہے تو نظر کی کمزوری سے لوگوں کی زندگی محدود ہوجاتی ہے اور تنہائی محسوس کرنے لگتا ہے۔ این ایچ ایس اور دوسرے اداروں سے آنکھوں کی تکالیف اور نظر کی کمزوری کا علاج کرایا جاسکتا ہے۔ تاہم کم آمدنی والے ممالک کیلئے یہ ایک بڑا مسئلہ ہوسکتا ہے کیونکہ ان کے پاس علاج معالجے کے وسائل محدود ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ آمدنی والے ممالک میں لوگوں کی اوسط زندگی زیادہ ہوتی ہے لیکن وہاں ڈیمنشیا کے مرض میں کمی ہورہی ہے، اس کا سبب طرز زندگی میں تبدیلی قرار دیا جاتا ہے جبکہ طبعی زندگی میں اضافے کے ساتھ ہی غریب ممالک میں ڈیمنشیا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ پروفیسر لیونگسٹن کا کہنا ہے کہ 12سال قبل آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ ڈیمنشیا کے بارے میں کچھ نہیں کیا جاسکتا لیکن اب یہ صورتحال نہیں ہے۔