ڈاکٹر ساجد خاکوانی
خاندان انسان کی پرورش کی سب سے پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔ یہ خدائی قانون ہے کہ انسان ایک خاندان میں آنکھ کھولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید (سورۂ نساء)میں فرمایا: ترجمہ: ’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑ پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں اور تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے سوال کیا کرتے ہو اور قرابت سے بھی ڈرو، بالیقین الله تم سب سے باخبر ہے ۔‘‘
یہ گویا انسانی خاندانوں کی ابتدا کا پس منظر بیان کیا گیا کہ کس طرح ایک آدم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے اپنی شانِ تخلیق سے پوری دنیا کو انسانوں سے بھر دیا ۔ یہ سلسلہ جس طرح ماضی میں ہر دور، ہروقت اور ہر قسم کے حالات میں جاری رہا، اسی طرح آج بھی ہے اور اسی طرح آخری انسان کی پیدائش تک جاری رہے گا کہ یہی قدرتِ خداوندی اور یہی منشائے ربانی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃ الحجرات‘‘ میں خاندانوں کا ذکرکیا اور فرمایا :ترجمہ: ’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف خاندان بنایا ، تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو ۔ اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا عزت والا وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو، اللہ خوب جاننے والا، خبردار ہے ۔‘‘
خاندان بعض اوقات تکبر اور فخروغرور کی علامت ہوتا اور بعض اوقات اس کے برعکس بھی ہوتا ہے، قرآن مجید نے اس کا تدارک کیا ہے،مثلاً ہندو معاشرے میں برہمن خاندان اس لیے عزت والا نہیں ہے کہ وہ برہمن ہے اورشودر اس لیے نیچ نہیں ہو سکتا کہ اس نے کسی شودر کے گھر میں جنم لیاہے، یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں کہ کس نے کس کے ہاں پیدا ہونا ہے، کوئی بچہ اپنی مرضی سے کسی کے ہاں وارد ہو سکتا ہے اور نہ کوئی والدین اپنی مرضی سے بچوں کا انتخاب کر سکتے ہیں، پس جس اللہ نے اپنی مشیت سے خاندانوں کی تقسیم کی ہے، اس کا حکم ہے کہ خاندان کسی عزوشرف کی بنیاد نہیں ہو سکتے، بلکہ یہ صرف پہچان کے لیے ہی ہیں کہ جب ایک ہی نام کے متعدد افراد ہوں گے تو وہ اپنے خاندان، قبیلے یا نسل کی بنیاد پر پہچانے جائیں گے۔
خاندانی تفاخر دورِ جہالت کی یاد تازہ کرتا ہے، جب کہ عزت کا معیارصرف تقویٰ ہے کہ کوئی اپنے رب سے کس قدر قریب تر ہے۔ حضرت بلال حبشی ؓ میں تقویٰ موجود ہے تو وہ عزت و وقار میں ابو جہل سے کہیں بڑھ کر ہیں، جس میں شاید دنیا بھر کی خاندانی وجاہت سمٹ کر جمع ہوچکی تھی۔ آپ ﷺنے فرمایا : ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں۔‘‘
گویا انسان کا بہتر یا بدتر ہونا دراصل اس کے گھروالوں کے ساتھ رویے پر منحصر ہے۔ دوستوں کے ساتھ، افسر کے ساتھ اور عام معاشرتی میں تو سب ہی بہتر ہوتے ہیں، لیکن اپنے خاندان، اپنے بچے، اپنی بیوی، اپنے والدین اور اپنے سسرال کے ساتھ کون اچھا ہے؟ یہ اصل سوال ہے۔ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو عمر میں ابھی کم سن تھیں، انہوں نے عربوں کے روایتی کھیل دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، آپ ﷺ نے انہیں جھڑکنے یا منع کرنے کی بجائے اور باپ یا بھائی سے یہ تقاضا کرنے کی بجائے آپ ﷺنے خود اُن کی یہ خواہش پوری کی اور حکمِ حجاب کے باعث دروازے میں آگے کھڑے ہو گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کے کندھے سے یہ دیکھتی رہیں، کافی دیر گزرچکنے کے بعد آپﷺ نے دریافت کیا کہ کیا یہ کھیل دیکھ لیا؟ آپ نے جواب دیا کہ نہیں ابھی اور بھی دیکھنا ہے۔
ظاہر ہے اس عمر میں دل کہاں بھرتا ہے؟! یہ انسان کامل، نبی مہربانﷺ اس وقت تک کھڑے رہے، جب تک کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا دل نہ بھر گیا۔ خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، جب بھی وہ تشریف لاتیں تو آپ ﷺان کےاحترام میں اُٹھ کھڑے ہوتے اور ان کے ماتھے پر بوسا دیتے، حسنین کریمین ؓتو آپ ﷺکو جان سے عزیزتر تھے، آپ ﷺ اُنہیں اپنے کندھوں پر سواری کراتے اور انہیں جنت کے نوجوانوں کے سرداربھی قرار دیا۔
غزوۂ حنین کے موقع پر کم و بیش چھ ہزار افراد غلام بنائے گئے ، اس موقع پرآپ ﷺ کی رضاعی بہن کو لایا گیا، انہوں نے آپ ﷺ سے ملاقات کی اور عرض کیاکہ بچپن میں آپ ﷺ نے ان کی کمر پر دندی کاٹی تھی، جس کا نشان آج بھی وہاں پر موجود ہے، اس بہن نے ان قیدیوں میں سے چند کی سفارش کی، جنہیں محسنِ نسواںﷺ نے آزاد کر دیا، جب یہ بہن باہر تشریف لائیں تو چھ کے چھ ہزار قیدیوں کے رشتے دار منت سماجت کرنے لگے کہ خدارا ہمارے قیدیوں کو بھی چھڑالاؤ، یہ بہن اپنے عظیم بھائی ﷺ کے پاس پھر حاضر ہو ئیں اور کل قیدیوں کی رہائی کی بابت سفارش کرڈالی، تب رحمۃ للعالمینﷺ کی شان ملاحظہ ہو کہ کمالِ شفقت و مہربانی سے کل قیدیوں کو رہائی عطا کر دی۔ کیسا شاندار بھائی اور کتنی ہی محبت والی بہن، یہ آسمان شاید پھر کبھی نہ دیکھ سکے۔ یہ رضاعی خاندانی محبت کی ایک مثال ہے۔خاندان کی پرورش اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت عمدہ عمل ہے۔
آپ ﷺ نے بیٹیوں کی پرورش پر جنت کی خوشخبری دی ، صالح اولاد کو صدقہ جاریہ قرار دیا، حافظِ قرآن و حافظۂ قرآن کووالدین کی شفاعت کا مژدہ سنایا، شہید کی ماں کے دامن کو خدا کی رحمت سے بھر دیااورسخت تاکید کی کہ اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بنائیں اور انہیں سات سال کی عمر سے نماز کی تلقین شروع کر دیں اور دس سال کی عمر میں اُن پر سختی کرنے لگیں، تاکہ نماز کے معاملے میں وہ سستی سے باز آجائیں۔
ہم میں سے ہر کوئی گلہ بان ہے اور اس کے گلے کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا۔ ہمارا گلہ ہمارا خاندان ہے، ہم اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ ہمارے خاندان میں غیرشرعی رسوم و رواج جگہ تو نہیں پارہے؟ ہمارے خاندان میں دولت کے بل بوتے پر ایسی روایات تو جنم نہیں لے رہیں جنہیں مقابلۃً غریب رشتے دار گھرانوں کو پوراکرنا مشکل ہو جائے؟ ہمارے خاندان کا رویہ قطع رحمی کا باعث تو نہیں بن رہا؟ اور کیا ہم اپنے خاندان کو دنیا کے رنگ میں رنگ رہے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے رنگ میں اورآخرت کا طلب گار بنا کر قربِ خداوندی کا باعث بن رہے ہیں؟
یورپ اپنی سیکولر سوچ کے باعث آج اپنے خاندانی نظام کو تباہ کر بیٹھا ہے اور اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ آزادیِ نسواں کے نام پرمادرپدرآزادی ہے، اب عمائدینِ یورپ اپنی پشتوں اورنسلوں کی بقا کے لیے مجبور ہیں کہ خاندان کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے سال بھر میں ایک دن اس مقصد کے لیے منائیں، تاکہ سیلاب، زلزلوں اور طوفانوں میں وہاں کے لوگ اپنے والدین اور بزرگوں کو حالات اور ریاستی اداروں کے سپردکرکے اپنے کتوں اور بلیوں کے ساتھ بھاگنے کے رویے سے باز آجائیں۔ سیکولرازم کے اس رویے نے انسان کو جانورسے سے بھی بدتر بنادیا ہے، کیونکہ حلال اورحرام کے مٹتے ہوئے فرق کی بناء پر انسانی خاندانی اعلیٰ روایات کی جگہ پیٹ کی خواہش اورجنسی خواہش نے لے لی ہے۔
اس کے مقابلے میں مسلم معاشروں میں انبیاء علیہم السلام کا آغاز کردہ ’’نکاح‘‘ کا ادارہ اپنے جملہ حدودوقیود کے ساتھ موجود ہے، دینی و مذہبی شعور کے باعث یہاں کے گھروں میں دن کا آغاز کسی بڑے کی آواز سے بیداری کے بعد شروع ہوتاہے اوردن کا انجام گھر کی بڑی بزرگ خاتون کی کہانی یا لوری سے اختتام پذیر ہوتا ہے۔ انسانیت بالآخر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کی طرف ضرور پلٹے گی اور ہر چڑھتا ہوا سورج خاندان کی عظمت و برتری کا سورج ہوگا اور خاندان کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے کسی ایک دن کے منانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔