میں نے بہت سی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کہ ایک ولی تو وہ ہوتے ہیں جو آپ کو اپنے اعمال سے بھی ولی دکھائی دیتے ہیں اور دوسرے ولی وہ جو اپنے اعمال سے ولی دکھائی نہیں دیتے بدکار ہوتے ہیں لیکن بہت پہنچے ہوئے ہوتے ہیں انہیں مخفی ولی کہا جاتا ہے، یہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ کوئی ان کی عبادات میں مخل نہ ہو کچھ خوش گمان مجھے بھی مخفی ولی قرار دیتے ہیں یہ ان کی بندہ پروری ہے ورنہ میں نے تو زندگی میں صرف ایک مخفی ولی دیکھا ہے اور آج کل ان کا اسم گرامی شیخ الاسلام طاہر القادری ہے۔ میں ان کی ولایت کا اس وقت سے قائل ہوں جب میاں محمد شریف مرحوم و مغفور نے انہیں اپنی اتفاق مسجد کا امام مقرر کیا ۔ظاہر ہے یہ منصب ان کے شایان شان نہیں تھا کہ امام مسجد تو ہر گلی کوچے میں پائے جاتے ہیں مگر شیخ الاسلام اس منصب جلیلہ پر ایک طویل عرصہ فائز رہے اور دلی جذبات کا اظہار نہ کیا۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب شیخ الاسلام کو میاں نواز شریف نے اپنے کاندھوں پر بٹھا کر غار حرا تک پہنچایا۔حالانکہ اس مخفی ولی کو کسی کاندھے کی ضرورت نہیں تھی وہ لوگوں کی نظروں سے خود کو مخفی رکھ کر پلک جھپکنے میں غار حرا تک پہنچ سکتے تھے ۔اس کے بعد رہی سہی کسر انہوں نے عمران خان کے جلسوں میں پوری کر دی تاکہ اگر کسی کو ان کی مخفی اولیائی میں رتی بھر بھی شبہ ہے تو وہ شبہ دل سے جاتا رہا !
برادرم سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ قادری صاحب جب ہم رپورٹرز سے ملتے تھے انہیں بتاتے تھے کہ ان کی ’’بھابی‘‘ چائنز کھانے توبہت عمدہ بناتی ہے، ایک دن اپنے گھر لے گئے اور کہا آپ کی ’’بھابی‘‘چائنز کھانے بنا رہی ہیں ہم اس دوران گپ شپ کرتے ہیں تاہم تھوڑی دیر بعد ہم نے دیکھا کہ ان کا ایک ملازم ایک بڑے سائز کے شاپر میں چائنز کھانےلےکر گھر میں داخل ہو رہا ہے اس طرح کے جھوٹ بولنا بھی مخفی ولی کی مجبوری ہوتی ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تو پورے ملک میں ٹیلیفونک سروس بند کر دی گئی اس دوران ان کا ایک ’’مرید‘‘ ٹیلی فون لیکر قادری صاحب کی طرف آیا اور کہا جنرل صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔قادری صاحب اٹھ کر پرے چلے گئے اور رپورٹرز کی طرف پشت کرکے خاموشی سے کھڑے رہے واپس آئے تو رپورٹرز نے کہا قادری صاحب آج تو پورے ملک میں فون سروس بند ہے آپ کو فون کیسے آ گیا بولے جنرل صاحب نے مجھ سے کچھ ضروری مشورہ کرنا تھا اس کے لئے انہوں نے یہ سروس بحال کرائی تھی !
اولیا اللہ غرورنفس میں کبھی مبتلا نہیں ہوتے وہ خود کو سب سے حقیر اور گنہگار سمجھتے ہیں مگر مخفی ولی کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں وہ خلق خدا کو خود سے دور رکھنے کے لئے بہت سی نازیبا حرکات کرتا ہے۔ عمران خان کے جلسے میں قادری صاحب ٹشو پیپر سے ناک پونچھ کر اپنے عقیدت مندوں کی طرف اچھال دیتے تھے اور وہ تبرک ساتھ لے جاتے تھے یا ممکن ہے کچھ نہ کچھ پونچھتے ہی ہوں، مگر ہمارے مخفی ولی کا یہ عمل بھی لوگوں کو اس حوالے سے متنفر کرنے کیلئے تھا کہ وہ سوچیں یہ شخص غرور نفس کا کتنا شکار ہے کہ ہم پر اپنی گندگی پھینک رہا ہے مگر سچا مرید کبھی ان گہرائیوں میں نہیں جاتا کہ اس کے مرشد نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ جنت میں لے جانا ہوتا ہے !
میں چونکہ ’’نان بیلیور‘‘ہوں اس لئے قادری صاحب کی ایک اور ’’واردات‘‘ قلبی کا بیان ’’ نقل کفر‘‘ والے محاورے کے مصداق یہاں درج کر رہا ہوں بقول قادری صاحب’’ میں نے حضورﷺ سے درخواست کی کہ آپ پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں جس پر حضورؐ نے تین شرائط پیش کیں پہلی یہ کہ میرا یہ دورہ تمہارے ادارے کے ذمے ہونا ہو گا،دوسری یہ کہ مدینے سے لاہور اور دوسرے شہروں کی پی آئی اے کی فرسٹ کلاس ریٹرن ٹکٹ تمہارے ذمے ہو گی،تیسری یہ کہ پاکستان کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام اور دوسرے اخراجات تمہارے ذمے ہوں گے‘‘ سن کر میں نے ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے کہا ’’حضورؐ میری تو اتنی استطاعت نہیں ہے مگر آپ کے حکم کی تعمیل ہو گی‘‘یہ خفیہ ولی یہ داستان اپنے مرید، مردوں اور خواتین کے مجمع میں بیان کر رہے تھے اس کے ساتھ ہی آہ وبکاہ کا ایک سلسلہ شروع ہوا مردوں نے اپنی جیبیں خالی کر دیں اور عورتوں نے اپنے زیوراتار کر ان کی خدمت میں پیش کر دیئے یہ کام صرف خفیہ ولی انجام دے سکتا ہے کہ جومسائل تصوف سے واقف نہیں ہیں وہ اس خفیہ ولی سے متنفر ہو جائیں !
اس کے علاوہ بھی حضرت صاحب کے بہت سے فرمودات ہیں مثلاً یہ کہ حضورؐ نے انہیں خواب میں بشارت دی کہ تمہاری عمر 62برس ہو گی جبکہ اب وہ ستر کے ہو چکے ہیں چنانچہ لوگوں کے دلوں میں اس جھوٹ پر اس شخص کے خلاف نفرت تو پیدا ہو گی اور مخفی ولی یہی تو چاہتا ہے۔ایک دفعہ فرمایا کہ وہ عالم رویا میں سترہ برس تک امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد رہ چکے ہیں جس پر میں نے کالم لکھا تھا کہ انہیں یاد نہیں میں ان کا کلاس فیلو تھا اور مجھے یاد ہے اس وقت بھی وہ بہت جھوٹ بولا کرتے تھے جس پر ناراض ہو کر امام ابو حنیفہؒ بہ طور سزا مولانا طاہر اشرفی کو ان کے اوپر بٹھا دیا کرتے تھے مگر میں نے یہ کالم اس وقت لکھا تھا جب میں حضرت کے مخفی ولی ہونے کی بابت کچھ جانتا نہ تھا!