عائشہ فردوس
صبح کے چار بجے زید گھر میں داخل ہوا۔ آہستگی سے دروازہ بند کر کے ایک محتاط نگاہ اپنے والدین کے کمرے کی طرف ڈالی۔ ابا سو چکے تھے اور غالبا اماں نے اس کے لیے دروازہ کھلا رہنے دیا تھا۔ بنا آہٹ کے صحن میں چلتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں آیا۔ اس کا چھوٹا بھائی اسد گہری نیند سو رہا تھا۔ وہ خاموشی سے کپڑے تبدیل کرکے لیٹ گیا۔
تیرہ اگست کی رات بارہ بجے سے شروع ہونے والا جشن آزادی چودہ اگست کی صبح کو اختتام پذیر ہوا۔ ساری رات دوستوں کے ساتھ پٹاخوں، باجوں، ہوائی فائرنگ اور ترانوں کی آوازوں میں گزارنے اور بائیک پہ شہر کی سڑکیں ناپنے کے بعد علی الصبح اس کی گھر واپسی ہوئی تھی۔ ابا کو سوتا دیکھ کر اسے اطمینان کا احساس ہوا۔ بچپن سے جب بھی وہ دیر سے گھر آتا ابا کی تفتیش اور سرزنش شروع ہو جاتی تھی۔ کالج جانے کے بعد ان کی روک ٹوک کافی کم ہو گئی تھی لیکن ایک خوف کا احساس پھر بھی اس کے دل میں تھا۔
اگلے روز دوپہر کے ایک بجے اماں کے متعدد باراُٹھانےپر زید نے آنکھیں کھولیں۔ منہ ہاتھ دھو کر وہ کمرے سے باہر نکلا اور اماں سے ناشتہ مانگا تو پتا چلا کہ دادا آئے ہوئے ہیں۔ اماں نے کہا، "جب کچھ دیر میں دادا کے لیے کھانا لگے گا ،تب ہی سب کے ساتھ کھا لینا۔"
باہر صحن میں ابا، دادا اور اسد کو ساتھ بیٹھا دیکھ کر زید نے اطمینان کا سانس لیا۔ دادا کی موجودگی میں ابا کی دانٹ سے بچ گیا۔ کم سے کم کچھ دیر تو کل رات دیر سے آنے پر ہونے والی کلاس ٹلی۔
دادا کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے زید نے انہیں سلام کیا۔
"وعلیکم السلام برخوردار، خیریت تو ہے اتنی دیر سے اٹھے ہو؟"، دادا نے اسے دیکھتے ہی استفسار کیا۔
"جی وہ بس رات کو چودہ اگست کی سیلیبریشن تھی وہاں سے آنے میں دیر ہو گئی تھی۔" زید نے کھسیانے ہو کر جواب دیا۔
دادا نے سمجھ جانے والے انداز میں سر ہلایا۔ پھر سب ادھر اُدھر کی باتوں میں مشغول ہو گئے۔ کچھ دیر بعد اماں نے کھانا لگا دیا۔
کھانا کھانے کے بعد ابا اسد کو اسکول کے تقریری مقابلے کی تیاری کرانے بیٹھ گئے۔ دادا اور زید صحن میں کرسیوں پر ہی بیٹھے تھے کہ دادا نے زید کو مخاطب کیا۔
"جانتے ہو جب میں تقریبا سات آٹھ برس کا تھا تو میں بھی تمہاری طرح شام کو دیر سے گھر آیا کرتا تھا۔ پوری شام اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا، پھر یوں ہوا کہ گھر ہی چھین گیا رات کو سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈنی پڑتی تھی۔ اس وقت احساس ہوا کہ گھر کتنی بڑی نعمت ہے۔"
"اچھا آپ بھی اپنے بچپن میں بہت شریر تھے؟" زید نے تجسس سے سوال کیا۔
"ہاں بھئی جب ہم بچے تھے تو بہت شرارت کیا کرتے تھے۔ کھیل کود ہی ہماری مشغولیات تھیں۔ لیکن ہمارے زمانے کے کھیل اور حالات آج سے بہت مختلف تھے۔ سچ پوچھو تو ہم تم لوگوں کی طرح ذہین نہ تھے۔ ہمارے زمانے کے بچے کچھ بے وقوف اور سادہ ہوا کرتے تھے۔
جب پاکستان بننے کی جدو جہد ہورہی تھی تو ہمیں حالات کے بارے میں زیادہ علم نہ تھا۔ بس اتنا معلوم تھا کہ ایک ایسی جگہ ملنے والی ہے، جہاں ہم ہندوؤں کے تسلط سے آزاد ہوں گے اور کوئی ہمیں تنگ نہ کرے گا۔ لیکن وہاں جانے کے لیے ہمیں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑے گا۔" اتنا کہہ کر دادا پھولے ہوئے سانس کو ہموار کرنے ٹھہرے پھر سلسلہ کلام دوبارہ جوڑا۔
"رمضان کا اختتام تھا جب پاکستان بننے کا اعلان ہوا ہم چاند رات کو اپنے گھر سے کچھ ساز و سامان اکٹھا کر کے اس نئی سرزمین کی جانب نکل پڑے۔ راستے میں صرف ایک احساس غالب تھا، وہ تھا خوف۔ ہر رات ہلکی سی ہلکی آواز پر بھی ہم خوف کا شکار ہو جاتے کہ کوئی حملہ کرنے آگیا ہے اور اب ہم پاکستان نہ جا سکیں گے۔ ایسا لگتا وہ لوگ ہمارا سامان چھین لیں گے اور ہمیں مار ڈالیں گے۔" وہ جذبات کی رو میں بولے جا رہے تھے اور زید کی نظریں دادا کے چہرے پر مرکوز تھیں، تکلیف اور اداسی کی تاثرات کو صاف دیکھ سکتا تھا۔ ان کی آنکھوں میں نمی بھی عیاں تھی۔
"جب ہم تھک جاتے تو اماں ہم سے کہا کرتی تھیں کہ بس تھوڑا سا راستہ رہ گیاہے جب ہم پاکستان پہنچ جائیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن انہیں معلوم نہ تھا صرف پاکستان پہنچنے سے سب ٹھیک نہیں ہو جائے گا بلکہ کمزور اور خوفزدہ لوگوں کی اس پنا ہ گاہ کو مضبوطی عطا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ہم نے یہاں آکر تحفظ تو حاصل کر لیا لیکن ہم اس سرزمین کے تقدس کا حق ادا نہ کر سکے۔" اب دادا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
"آج جیسا جشن آزادی منایا جاتا ہےکیا ہجرت کرنے والے یہ سب دیکھ کر خوش ہوتے؟ کیا اس لیے پاکستان آئے تھے؟ دادا اب سسکیوں سے رو رہے تھے۔ زید انہیں حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ یکدم وہ اٹھا اور اس نے دادا کو گلے سے لگا لیا۔ اسی طرح جیسے وہ اسے ابا کی ڈانٹ کھانے کے بعد دلاسا دیا کرتے تھے۔
اس کے ذہن میں شرمندگی سے پچھلی رات کے واقعات گردش کر رہے تھے۔ کچھ دیر پہلے تک جو چیز ایک خوشگوار یاد تھی اب اسے پشیمان کر رہی تھی۔ کل رات جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ آزادی کا جشن منا رہا تھا تو اس وقت اسے پاکستان سے جُڑی امیدوں کا خیال کیوں نہ آیا، بائیک پر آوارہ گردی کرتے ہوئے اسے ہجرت کے سفر کی وحشت کا خیال کیوں نہ آیا، رات دیر تک گھر سے دور رہنے پر گھر کی اہمیت کا خیال کیوں نہ آیا۔ زید کی آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں۔ لیکن اب ان میں ایک عزم جگمگا رہا تھا۔
"آپ نہ روئیں دادا۔ میں نے ہجرت کے کئی واقعات پڑھے ہیں لیکن مجھے اس کی اہمیت کا احساس نہ ہو سکا۔ آج تک میں پاکستان کی تاریخ کو اپنی درسی کتب کا ایک سبق سمجھتا رہا لیکن آج آپ کے جذبات اور نظریات کا اندازہ ہوا۔ آج پتا چلا کہ یہ ملک میرے، آپ کے لیئے، ہم سب کے لیئے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ انشاء اللہ میں آپ کی اُمید اور توقعات ضائع نہیں ہونے دوں گا۔