• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرأت نقوی: ٹیکساس، یو ایس اے

موہنی آج بہت خوش تھی۔ اتوار کا دن تھا۔ وہ اپنی امی کے ساتھ مارکیٹ گئی تو وہاں اُس نے ایک طوطے والے کو دیکھا جو اپنےکاندھے پر ایک بڑے سے پنجرے کو اٹھائے ہوئے تھا جس میں ہرے ہرے طوطے تھے۔ موہنی نے اپنی ماں کا بازو ہلایا۔ ’’اماں مجھے بھی طوطا چاہیے‘‘ موہنی کی بیوہ ماں ایک فیکٹری میں کام کرتی تھی اور اس کی قلیل تنخواہ میں مشکل سےگزارہ ہوتا تھا۔ ماں نے جھڑکا ’’نہیں بالکل نہیں، پیسے نہیں ہیں میرے پاس‘‘ موہنی نے ماں کا دامن پکڑ کر طوطے والے کی طرف گھسیٹنا شروع کردیا۔ 

’’اماں وعدہ کرتی ہوں پورے مہینے پیسے نہیں مانگوں گی‘‘ آس پاس سے گزرنے والے لوگ دیکھنے لگے۔ پاس سے گزرتی ایک عورت بولی ’’ارے دلادو بچی ہے دل بہل جائے گا‘‘۔ ماں نے سوچا کہ اسکول سے آنے کے بعد محلے کے گھروں میں جاتی ہے۔ اچھا ہے گھر میں رہے گی۔ ماں نے پرس کو ٹٹولا اور سوچنے لگی، کون سا سامان کم کر کے موہنی کی خواہش پوری کروں۔ طوطے والے سے قیمت پوچھی تو 60 روپےکا ایک طوطا تھا۔’’ اچھا چلو ایک دے دو‘‘۔ باجی اکیلا لوگی تو اداس رہے گا، کہیں بیمار نہ پڑجائے۔ 

جوڑی لے لو 100 کی دے دوں گا۔ ماں نے دوبارہ پیسے گنے۔’’ 80روپے ہیں میرے پاس۔‘‘’’ اچھا 80 ہی دے دو ۔‘‘گھر کے خرچے کی لسٹ کم ہوگئی۔ ’’پر کاٹ دینا دونوں کے اڑ نہ جائیں۔‘‘ ارے باجی پر کاٹ کے دوں گا بے فکر رہیں‘‘۔ طوطے والے نے باری باری دو طوطے نکالے۔ ایک ایک کرکے دونوں کے دو دو پر نوچے۔ طوطوں نے باری باری دو چیخیں ماریں۔ انہیں باریک تار سے بنے ایک چھوٹے سے پنجرے میں ڈالا۔ 

دونوں سہم کر ایک دوسرے سے چپک گئے۔ موہنی نے خوشی خوشی پنجرہ ہاتھ میں لیا۔ برابر میں آم والے کا ٹھیلا تھا۔’ ’اماں طوطوں کے لئے آم تو لے لو‘‘۔ موہنی نے کہا۔’’ارے میرے پاس پیسے نہیں بچے ۔ ماں نے آموں کے ٹھیلے کے کونے پر رکھے گلے سڑے آموں کو حسرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ کبھی کبھی گھر کے سودے کے بعد اگر پیسے بچ جاتے تو اماں پھلوں کے ٹھیلے سےگلے سڑے پھل اٹھا لاتی کہ سستے مل جاتے تھے، پھر ان میں سے جوکچھ نکلتا وہ موہنی کو کھلا دیتی۔ آم والا جو یہ سب دیکھ رہا تھا اُس نےگلے ہوئے آموں میں سے ایک اٹھا کر موہنی کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ 

دونوں ماں بیٹی گھر کی طرف چل دیں۔ موہنی پورے راستے ہر راہگیر کو دیکھ کر اتراتی رہی کہ دیکھو میں نے طوطے لئے ہیں۔ گھر آکر جلدی جلدی پرانےکاٹھ کباڑ میں سے ایک زنگ آلود پنجرہ نکالا اسے صاف کیا اور دو کٹوریوں میں سے ایک میں پانی بھرا۔ دونوں طوطوں کو پنجرے میں ڈالا۔ تھیلی سے ماں نےگلا ہوا آم نکلا۔اور اسے کاٹا دونوں طوطوں کے حصے میں دو ٹکڑے جبکہ موہنی کے حصے میں ایک ٹکڑا آیا۔ طوطوں کاسن کرمحلے کے بچے ان کے گھر آئے۔ 

سب کو طوطا دکھاکر مونہی خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھی۔ اگلے دن اس کا دل چاہا کہ طوطوں کو نکال کر پیار کرے۔ پنجرہ اٹھاکر کمرے میں لے گئی۔ کمرے کا دروازہ بند کرکے پنجرے کا دروازہ کھولا۔ دونوں طوطے باری باری باہر آئے اور کمرے میں ایک کونے میں دبک گئے۔ موہنی نے چادر ڈال کر دونوں کو پکڑا اور سینے سے چپکا کر پیار کرنے لگی۔ تینوں کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ موہنی کا خوشی سے اور طوطوں کا خوف سے۔ اس بیچاری کو کیا معلوم کہ طوطوں کو اس کی محبت نہیں چاہئے۔ 

ان میں سے ایک کو موقع ملا تواُس نے موہنی کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ اُس نے ڈر کے دونوں کو واپس پنجرے میں ڈال دیااورعہد کرلیاکہ دوبارہ کبھی نہیں نکالے گی۔ اب موہنی روز اسکول سے آنے کے بعد طوطوں میں لگی رہتی،ان کے پاس بیٹھ کر کھانا کھاتی۔ ساتھ ساتھ دونوں کو اپنے دن بھر کی روداد سناتی۔ دونوں طوطے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتے ۔ گرمیوں سے بے حال طوطوں کو نہلاتی۔ دو مہینوں میں طوطے موہنی سے اتنے مانوس ہوگئے تھے کہ اس کے ہاتھ سے روٹی لے کر کھانے لگے۔ 

بھیگی چنے کی دال اور روٹی ہی ان کی معمول کی غذا تھی ، پھل تو کبھی ہفتے دو ہفتے میں آتا تو کبھی امرود یا سیب کے دو ٹکڑےتو کبھی انگور کے چار دانے ان کے حصے میں بھی آجاتے، ان کی بھی عید ہوجاتی۔ ویسے تو دونوں آپس میں مگن رہتے پنجرے میں لگی واحد لکڑی پر بیٹھے اونگھتے رہتے لیکن اگر کبھی گھر کے صحن کے اوپر سے کوئی آزاد طوطا شور کرتا گزرتا تو دونوں بے چین ہو کرٹیں ٹیں کرتے پنجرے میں گول گول چکر کاٹنے لگتے پھر تھک کر بیٹھ جاتے۔ موہنی کا دل اس بات پر ہمیشہ کڑھتا تھا۔ اگست کا مہینہ تھا۔موہنی کے اسکول میں 14اگست کا فنکشن تھا۔اسے ملی نغمہ گانا تھا جس کو وہ دن بھر رٹتی رہی۔ 

رات بستر پر سونے سے پہلے بھی بہت پُرجوش تھی۔ درمیانی شب میں بادل کی گرج سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اسے یاد آیا کہ طوطوں کا پنجرہ توباہر صحن میں ہے۔ وہ جلدی سے بستر سے اٹھی۔ باہر موسلا دھار بارش میں دونوں طوطے بھیگ گئےتھے۔ موہنی پنجرہ کمرے میں لےآئی۔ دونوں ایک دوسرے سے چپکے بیٹھے تھے۔ اسے افسوس ہوا پھر اسے یاد آیا کہ صبح جلدی اٹھنا ہے تو واپس سوگئی۔ اگلے دن اسکول کے فنکشن میں موہنی کے ملی نغمے کی خوب تعریف ہوئی اور انعام میں ٹرافی بھی ملی۔ موہنی خوشی خوشی گھر آئی اور طوطوں کو اپنی ٹرافی دکھائی۔ 

اتنے میں آسمان پر طوطوں کا ایک غول شور مچاتا صحن کے اوپر سے گزرا تو دونوں طوطے بے چین ہوکر پھڑ پھڑانے لگے۔ موہنی کا دل کسی نے اپنی مٹھی میں لے لیا۔ آج تو سب جشن آزادی منارہے ہیں تو یہ قید میں کیوں ہیں۔ لیکن اگر ان کو آزاد کردیا تو کس سے دن بھر باتیں کروں گی۔ کس کو پیار سے اپنے ہاتھوں سے روٹی کھلائوں گی؟ ننھا سا دماغ کشمکش کا شکار ہوگیا۔ لیکن پھر اس نے فیصلہ کرلیا۔ 

طوطوں کے پنجرے کا دروازہ کھول کے دور کھڑی ہوگئی۔ دونوں طوطے باری باری پنجرے سے نکلے اور گھر کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ موہنی نے بھیگی آنکھوں سے ان کو ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا، ’’ مٹھو میاں، جشن آزادی مبارک ہو‘‘ دونوں طوطے اڑ کر جنگلی طوطوں کے غول سے جاملے اور موہنی بھیگی پلکوں لیکن پُرسکون دل کے ساتھ ان کو دور جاتا ہوا دیکھتی رہی۔