تحریر: سید علی جیلانی… سوئٹزر لینڈ آزادی ہر انسان کیلئے یکساں اہمیت کا حامل ہوتی ہے لفظ آزادی اردو یا ہندی کا ہے جس کے معنی نجات یا چھٹکارا کے ہیں ہر عاقل بالغ اور باشعور انسان لفظ آزادی کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا، انسان کی تخلیق سے لے کر آج تک اس آزادی کیلئے بڑے بڑے معرکے لڑے گئے اور اَن گنت افراد کے خون سے آزادی کی تحریکوں کا آغازوانجام ہوا 14اگست 1947کو جو تاریخ کی ایک روشن اور تابناک صبح تھی جب ہم انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں توڑ کر قائد اعظم محمد علی جنا ح کی قیادت میں آزادی کی نعمت سے بہرہ ورہو ئے تھے، پاکستان ماہ رمضان کی عظیم ساعتوں میں معرض وجود میں آیا۔ ظہور پاکستان محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خالق کائنات کی عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے جس سے رمضان ،قرآن اور پاکستان کی نسبت و تعلق کی داغ بیل پڑی۔ تحریک پاکستان ایک نظریاتی اور ملی تحریک تھی جس کا مقصد ہندی، فرنگی تمدنی تسلط سے آزادی حاصل کرنا تھا 14اگست ہمارے لئے واقعی بہت بڑا اور قابل فخر دن ہے کیونکہ آزاد قومیں ہی اپنی خوشی و غمی کے دن آزادی سے مناسکتی ہیں جبکہ غلام قومیں اپنی مرضی سے نہ مسکرا سکتی ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے رو سکتی ہیں، مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے۔ وطن اور نسل نہیں۔ قیام پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے جو دشمن یہ اظہار خیال کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ قرار داد لاہور میں اسلام کا حوالہ موجود نہیں اور نہ ہی قیام پاکستان کے بعد نفاذ اسلام کا کوئی عزم و ارادہ ظاہر کیا گیا تھا وہ اس بات پر غور کریں کہ قائد اعظم کے نزدیک کلمہ توحید کے مختصر ترین الفاظ کا مفہوم کتنا وسیع تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ پاکستان اسی دن معرض وجود میں آگیا جب ایک ہندو مسلمان ہو گیا، کیا قائد اعظم نے کلمہ توحید کے حوالہ صرف ہندوستان کا جغرافیہ تقسیم کرنے کے لئے دیا تھا قائد اعظم نے اسلام کو پاکستان کا جذبہ محرکہ اور وجہ جواز بھی قرار دیا تھا یوم آزادی پر ہم جھنڈے لہرا کر 1947ء کی آزادی کی یاد تازہ تو کر لیتے ہیں مگر اس ملک کے حالات درست نہیں کر سکے۔ کیا قوم آزادی کا اصل مقصد حاصل کرپائی، پاکستان عظیم ترین مقاصد کیلئے حاصل کیا گیا تھا،جوبانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعداکتوبر 1947ء میں پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کراچی میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں واضح کئے تھے کہ پاکستان کا قیام جس کیلئے ہم گذشتہ دس سال سے مسلسل کوشش کر رہے تھے اب خدا کے فضل سے ایک حقیقت بن کر سامنے آچکا ہے لیکن ہمارے لئے اس آزاد مملکت کا قیام ہی مقصود نہ تھا بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی اسلامی روش اور ثقافت کے مطابق نشو و نما پا سکیں اور اسلام کے عدل عمرانی کے اصول پر آزادانہ طور پر عمل کر سکیں حکمرانوں نے پاکستان کو اپنے باپ کہ جاگیر سمجھ کر اس بری طرح لوٹا کہ آج پوری قوم کاسہ گدائی لئے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف جیسے ظالم اداروں کے سامنے کھڑی ہے جو اپنی مرضی سے ہمارابجٹ بنواتے ہیں ہم پر ٹیکس لگواتے ہیں سرمایہ دار و جاگیردار سردار و مولوی ، پیرو مجاہد جیسے غنڈے و درندے انسانی معاشرے کو اپنی بدترین ہوس کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ان کے سامنے کوئی بھی اذان بلالی دینے والا نہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک مرتبہ ملک کے سرمایہ داروں اور غاصبوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ”میں یہاں ان لینڈ لاڈوں اور سرمایہ داروں کو تنبیہ کرنا ضروری سمجھتاہوں جو اک ظالمانہ نظام کی پیداوار ہیں اور عوام کی مجبوریوں کا استحصال کرتے ہوئے پھلتے پھولتے ہیں یہ لوگ اس حد تک خود غرض ہیں کہ وہ کسی کی دلیل سننے کو تیار نہیں لوگوں کا استحصال کرنا ان کے رگ و پے میں بس گیا ہے۔انہوں نے اسلامی تعلیمات کو فراموش کردیا ہے آپ جہاں کہیں بھی دیہی علاقوں میں جائیں یہ استحصال آپ کو نظر آئے گا ۔آپ کو لاکھوں ایسے انسان ملیں گے جن کو ایک وقت کا کھانا میسر نہیں ،کیا اسی کا نام تہذیب ہے بخدا یہ صریحاً توہین ہے اْن جذبوں کی جو قیام پاکستان کیلئے دی جانے والی قربانیوں کے پیچھے کار فرما تھے، یہ توہین ہے اْس خون کی جو پاکستان کیلئے شہدا ء کے بدن سے بہا ، یہ توہین ہے اُس نظریے کی جس کی بنیاد پر تحریک پاکستان چلائی گئی ہمیں آزادی انگریزوں نے نہ تو طشتری میں سجا کر بطو ر تحفہ دی تھی اور نہ ہی بخشش کے طور پر عنایت کی تھی بلکہ ہماری آزادی کی تاریخ بڑی طویل،صبر آزما اور عظیم جدوجہد سے عبارت ہے آزادی کے77 سال کے بعد بھی ہمای قوم دوراہے پر کھڑی ہے ٫ جو خود کو آزاد تو سمجھتی ہے مگر اپنی سوچ کی آزادی کی ڈور غیروں کے ہاتھوں میں دے کر آزاد قوم ہونے کے جشن مناتی ہے ٫ یہ بات قا بل غور ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں مہارت رکھنے والے اعلیُ تعلیم یافتہ لوگ ذہنی معذور کہلانے کے قابل ہیں جو اپنے ضمیر کا سودا کر کہ کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ جن کی نہ اپنی کوئی سوچ ہے نہ ہی زندگی کا کوئی مقصد مقصد ہے بھی تو اپنے پیروں کاروں کی حمایت میں قصیدے پڑھنا، دیکھا جائے تو کبھی ہم آزاد ہوئے ہی نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی سطح پرغلامی کی ہی زنجیروں میں ہی جکڑا ہوا ہے۔ کاش ہم آزاد ہو سکتے،اپنے حقوق کی جنگ خود لڑ سکتےمگر ممکن تو تب ہوتا ہے جب قومیں آزاد ہونا چاہیں، ای یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم اپنی سوچ کو غلامی کے شکنجے سے آزاد کروا کر ایک خود مختار قوم بنائیں گے۔