• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
بھر دیئے یہ رنگ کیسے مجھ میں اس کے پیار نے
ہر طرف ہے اک دھنک اک کہکشاں میرے لئے
خوبصورت اور بھی ہیں ملک دنیا میں مگر
ارض پاکستان ہے جنت نشاں میرے لئے
میری خوش فہمی کی رخشی انتہا بھی ہے کوئی
میں سمجھتی ہوں کہ ہے سارا جہاں میرے لئے
آزاد مملکت میں سانس لینے کا مقصد ہے کہ جیسے چاہو اپنی زمین اپنی دھرتی پر کھل کر ہنسو، کھیلو، کیسی بھی زدگی بسر کرو۔ لیکن خدا کی خاص رحمت و نعمت کو دھیما چوکڑی اور دیگر خرافات سے دور رکھا جائے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اور بعض قومیں آزادی لفظ سے آشنا ہیں مگر اس کی افادیت، دلی مسرت و سکون سے ہر کوئی واقف نہیں یہ تمام تکلفات اپنے آزاد ملک میں ہی ممکن ہیں۔ ورنہ ان غلام قوموں کا حال دیکھئےجنہیں کبھی زمین کی آزادی حاصل نہیں اور کبھی ذہنی و جسمانی سکون نصیب نہیں، فلسطین اور کشمیری کی حالت زار آپ کے سامنے ہے۔ اسی لئے ریاست پاکستان کا قیام تمام پاکستانیوں کے لئے غنیمت اور نعمت سے کم نہیں۔ مملکت وجود میں آجائے تو اس سے منسلک پھر ہر ایک ادارہ، محکمہ، دفتر سبھی کچھ وجود پانے لگتا ہے۔ ملک کی بہتر سے بہتر نشو نما کے لئے مملکت آزاد ہوتے ہی متحرک ہو جاتی ہے۔ ہم بھی 77سال سے متحرک ہیں، ملک کی بہتری اور عوام کیلئے ہر ادارے محکمے کو متحرک ہونا پڑتا ہے۔ ہم ذہنی طور پر بھی متحرک ہیں۔ دیار غیر میں بھی خود کو ملک خداداد میں سمجھتے ہیں۔ اسے جنت نشاں، دھنک رنگ اور کہکشاں سے بھری زمین سمجھتے ہیں۔ زمین کو جنت وہاں کے مکین بناتے ہیں۔ ویسے وہ کون سی قوم و عوام ہے جو اپنے مکان میں رنگ بھر کر اسے خوبصورت گھر میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ ہر گھر کا مکین ایسا ہی کرنا چاہتا ہے مگر یہ صرف آزاد ممالک میں ہی ممکن ہے جہاں کسی بھی قسم کا خوف نہیں، وطن کی آزادی پر باجے بجانے کا شور، ڈھول کا شور، ون ویلنگ اور ہجوم کا شور مچانا یہ پاکستانیوں کا انداز ہے آزادی کی خوشی منانے کا۔ ہمارے پاکستانی دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں ان کا انداز بس اسی طرح سے جشن منانے کا ہے اس لئے کہ وہ دلی، دماغی اور روحانی طور پر جانتے ہیں کہ ہم آزادملک کے باسی ہیں۔ غلام اور ظلم کی چکی میں پسنے والی قوم کبھی ایسے خوشی نہیں منا سکتی ورنہ کشمیری قوم بھی اپنے یوم استحصال کے بجائے کھل کر یوم آزادی ہماری ہی طرح منا رہی ہوتی۔ کیسے برداشت کرتے ہیں لوگ غلامی اور ظلم کو۔ بات ہو رہی تھی کہ ملک میں کئی ادارے متحرک رہتے ہیں ریاستی امور کی ذمہ داریوں کیلئے انہیں میں ایک فعال ادارہ پاکستانی سفارتخانہ بھی ہے۔ یہ سفارت خانہ بیرون ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کو اپنے ملک سے جوڑ کر رکھتا ہے۔ بیرون ملک میں مقیم ہر شہری اپنے اپنے سفارتخانے کو اپنے لئے امید کا گہوارہ سمجھ کر اس سے رغبت رکھتا ہے جہاں کہیں بھی کسی ملک میں کثیر تعداد میں شہری ہوں یا قلیل تعداد میں ہوں اسی کے مطابق سفارتخانے اور قونصل خانے کھولے جاتے ہیں۔ پاکستان ہائی کمیشن ہر دور میں اپنے شہریوں کی خدمات میں نہ صرف پاسپورٹ یا دوسرے دستاویزی کاموں کیلئے خدمات سرانجام دیتا ہے بلکہ یہاں پر پاکستان کے دن اور تہوار بھی منانے جاتے ہیں جس میں لوگوں کی بھرپور تعداد شرکت کرتی ہے۔ پاکستان ہائی کمیشن لندن کمیونٹی کی خدمات میں پیش پیش ہے، یہاں کی تقریبات پاکستانی تہذیب کا رنگ لئے ہوتی ہیں۔ اسی اگست کے مہینے میں دو نہایت اہم تقریبات ہوئیں۔ پہلی تقریب 5اگست کو یوم استحصال کشمیر منایا گیا اور دوسری اہم تقریب یوم آزادیٔ پاکستان منایا گیا۔ آزادی کے دن کی خاص بات پرچم کشائی کی خوبصورت تقریب ہوتی ہے یہ قومی یکجہتی کی علامت ہوتی ہے۔تقریب میں آزادی کی جدوجہد کو یاد کیا جاتا ہے، اس جدوجہد میں شامل شخصیات کو یاد کرکے خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ملی نغموں کا دل موہ لینے والا سلسلہ شروع ہو تو ہر شہری جھوم اٹھتا ہے۔ کچھ ایسا ہی سماں لندن ہائی کمیشن میں بندھتا ہوتا ہے۔ اس لمحے کا کیا کہنا جب ڈاکٹر محمد فیصل نے قومی ترانے کی دھن پر پاکستانی پرچم فضا میں بلند کیا۔ ہائی کمشنر صاحب کے خطاب میں ان تمام ہستیوں کو خراج عقیدت، وطن کے حصول کی جدوجہد اور قربانیوں کا ذکر تھا۔ محترم سفیر پاکستان نے کشمیری اور فلسطین کے بھائیوں کے لئے بھی اچھے کلمات پیش کئے اور پاکستان کو خوشحال، مضبوط اور پرامن راہوں کی تعمیر کیلئے اتحاد اور ہم آہنگی پر زور دیا۔ سچ ہے کہ سفارتکار عوام و ملک کو یکجا کرتا ہے۔ اسی طرح کشمیری بھائیوں سے یکجہتی اور خیرسگالی کے جذبات اور ان کی حمایت میں 5اگست کو بھی تقریب تھی ۔ ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل نے کشمیریوں سے خاص جذبات و احساسات اور ان کی جائز امنگوں کی حمایت کی۔ بھاررت کے غیرقانونی اقدامات کی مذمت کی۔ ہائی کمشنر کی وابستگی قابل ستائش ہے۔ ایسے ہی جذبات کی قدر کی جاتی ہے۔
یورپ سے سے مزید