• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ایم اسلم چغتائی… لندن
قیام پاکستان کے بعد معمار پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے زندگی نے وفا نہ کی اور قیام پاکستان کے دوسرے سال ہی 11 ستمبر 1948کو اس جہان فانی کو الوداع کہہ گئے۔ اس کے بعد ان کے عظیم ساتھی لیاقت علی خان (جو پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے) کو 16 اکتوبر 1951کو راولپنڈی لیاقت باغ میں سازش کے تحت شہید کر دیا گیا۔ ان دونوں عظیم رہنماؤں کے بعد ملک میں بدقسمتی سے جمہوریت نہ پنپ سکی اور ملک کی باگ ڈور وڈیروں امیروں اور فوج کے ہاتھ آگئی اس کے ساتھ ساتھ محلاتی سازشیں شروع ہو گئیں بیورو کریسی مضبوط ہوتی گئی جس کی وجہ سے آج تک ملک میں کوئی بھی وزیراعظم بیورو کریسی کی مرضی کے بغیر منتخب نہیں ہوسکا اور نہ ہی کسی وزیراعظم نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے (محمد علی بوگرہ سے لے کر میاں محمد شہباز شریف تک)۔ سیاستدانوں کے درمیان عدم اتفاق، عدم اتحاد، رسہ کشی، لڑائیاں، آئینی جھگڑے شروع ہو گئے، آج تک جاری ہے۔ سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیوں اور نااہلیوں کا فائدہ فوج نے اٹھایا اور اس طرح 1950میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء سے لے کر 1999تک چار مارشل لاء لگے جن میں جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء شامل ہیں۔ فوجی، صدارتی اور پارلیمانی نظاموں کے تجربات ملک میں آج تک ہو رہے ہیں، حکمرانوں اور سیاستدانوں کے درمیان آپس کی آئینی لڑائیوں اور محاذ آرائی سے کبھی بھی ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکا جس کی وجہ سے معاشی اور سماجی بحران بھی بڑھتے گئے۔ آج معاشی سیاسی بحران مہنگائی اور دہشت گردی زوروں پر ہے۔ اقتصادی طور پر پاکستان آج بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھی پیچھے چلا گیا ہے، ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے روز اول سے عدلیہ کو اپنے آئینی سیاسی اور قانونی معاملات میں الجھائے رکھا ہے اور عدلیہ کو اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ عام آدمی کو انصاف دینے کے لئے عدلیہ کے پاس وقت نہیں، کئی بے گناہ لوگ جیلوں میں زندگی گزار رہے ہیں جو عدالتوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔ عوامی خدمت کی بجائے فقط ذاتیات اور محاذ آرائی کی سیاست کی جارہی ہے ماضی کے تلخ واقعات اور مارشل لاؤں سے بھی کسی نے سبق نہیں سیکھا۔ حکمران اور اپوزیشن دونوں اپنی اپنی جگہ پر ڈٹے ہوئے ہیں کوئی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اپوزیشن فقط مزاحمت اور محاذ آرائی کی سیاست کر رہی ہے اپنی انا کو لئے بیٹھی ہے۔ اپوزیشن ہو یا حکومت دونوں کو اپنے اپنے انا کے بتوں کو توڑنے کے لئے تیار نہیں۔ عوام کی کسی کو پرواہ نہیں، تینوں بڑی سیاسی جماعتوں خاص طور پر برسراقتدار پارٹی مسلم لیگ نواز پر اور اس کی اتحادی بڑی جماعت پیپلز پارٹی پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ یہ ملک و قوم کی خاطر آگے بڑھیں اور ملک کی سب سے بری سنگل سیاسی جماعت اپوزیشن تحریک انصاف سے ہاتھ ملائیں، گلے شکوے شکایات کا ازالہ کریں اور ان سے محاذ آرائی اور مزاحمت ختم کرکے بات چیت پر مائل کریں، مفاہمت کرنے پر آمادہ کریں، سیاسی اور آئینی معاملات کو آئینی اور قانونی طریقوں سے حل کرنے کی یقین دہانی کرائیں، سنگین معاشی اور سیاسی بحرانوں پر قابو پانے کے لئے بات چیت کے لئے آگے بڑھیں۔ میری رائے میں ملک کے موجودہ سیاسی معاشی اور سماجی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس وقت ایک متفقہ جمہوری مخلوط حکومت بنانے کی اشد ضرورت ہے جس کے لئے ملک کے تمام محب وطن قوم اور ملک کا درد رکھنے والے، ملک کے موجودہ سیاسی اور معاشی حالات کو سمجھنے والے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے علاوہ اہل دانش، قانون دانوں، وکلا، علمائے کرام، یونیورسٹیوں کے پروفیسروں اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے دانا اور قابل افراد افراد پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک اور قوم کی خاطر آگے بڑھیں اپنا اپنا کردار ادا کریں ملک مزید سیاسی اور بحرانوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سیاست دان حکمران اور اپوزیشن اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سیاست سے بالاتر ہوکر مفاہمت کی جانب قدم بڑھائیں اور ایک بڑی جامع بین الجماعتی کانفرنس منعقد کی جائے جس میں تمام جماعتوں کے حکمران شامل ہوں اور ایک متفقہ مخلوط حکومت بنانے پر متحد ہو جائیں۔ اس مخلوط حکومت میں تمام جماعتوں سے اپنے اپنے شعبوں میں ماہر اور قابل ان افراد کا انتخاب کیا جائے جو بے لوث محب وطن ہوں ملک و قوم کا دل میں درد رکھتے ہوں ان کا دامن صاف ہو اور قوم اور ملک کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ ملک کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کو ختم کرنے کے لئے موجودہ حالات میں مخلوط کو حکومت ہی حل ہے، جس کے لئے سنجیدگی سے سوچنے اور فوری عمل کی ضرورت ہے۔ محاذ آرائی، مزاہمت، مظاہرے اور دھرنے، آپس کی لڑائیاں، سیاسی، قانونی، معاشی اور سماجی بحرانوں کا حل نہیں، تمام مسائل حل کرنے کے لئے تمام سیاست دانوں اور حکمرانوں کو مذاکرات کی ٹیبل پر آنا ہوگا۔ اکھٹے بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے مثبت رویوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا ملک اور قوم کیلئے سوچنا ہوگا۔ ملک ہوگا تو ہم سب ہوں گے باتوں اور تقریروں کا وقت ختم ہو چکا ہے کام کام اور کام کرنے کا وقت ہے۔
یورپ سے سے مزید