• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎درویش اگر یہ کہے کہ ہم غیر متوازن لوگ ہیں تو کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے اسلئے کہ ہماری پون صدی کی تاریخ اسی اپروچ سے بھری پڑی ہے بلکہ پارٹیشن سے قبل بھی اس نوع کی ہوشربا حرکات بطور نمونہ پیش کی جا سکتی ہیں آخر ہم لوگ اپنا ہیرو ہمیشہ کسی جنونیت سے لبریز، بھڑکاؤ بھاشن دینے والے اقتدار کے حریص کو ہی کیوں بناتے ہیں؟ مریدین کی ’’عقیدت‘‘ کو دیکھ کر کسی بھی پیر کے مقام کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے وہ تمام کھلاڑی جو ملک کیلئے اعزاز حاصل کرتے ہیں بلاشبہ وہ سب ہمارے ہیرو ہیں جنکی قدر افزائی ہونی چاہیے لیکن ملک کو نیک نامی دلانے والے محض کھلاڑی ہی تو نہیں ہوتے، جو لوگ کھیل کود سے کہیں اوپر اٹھ کر علم کے کسی شعبہ میں چاہے وہ طب یا معیشت سے متعلقہ ہو یا عمرانیات و لٹریچر کے حوالے سے یا کوئی کسی پروفیشن یا ہنر میں یکتا ہو تو اس کی بھی قدر افزائی ہونی چاہیے، ایسا قومی ہیرو کھیل والے ہیرو سے کسی طرح کم نہ گردانا جائے۔ ہم نے کبھی سوچا کہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو ہر سال دنیا کے سب سے بڑے نوبل انعام کے حقدار قرار پاتے ہیں؟ ظاہر ہے بہت تھوڑے لوگ ملیں گے اور ان میں جنوبی ایشیا سے کتنے لوگ تھے جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا؟ حتیٰ کہ ہمارے مشرق حکیم الامت کو بھی یہ انعام نہ ملا، البتہ ان کے ہم عصر معروف بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور نے اعزاز حاصل کر لیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہماری دو باصلاحیت پاکستانی شخصیات ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ یوسف زئی نے اقوام عالم میں اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہوئے یہ عظمت اپنے ہم وطنوں کو دلائی لیکن انکے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ایک الگ داستان ہے‎۔ ہمارا میڈیا کھیل کود کے جتنے چاہے قصیدے بیان کر لے اور علم و دانش یا ادب و ہنر کی اہمیت کو جتنا چاہے نظر انداز کرے مگر یہ سچائی کیا اپنی جگہ اٹل حقیقت نہیں کہ کوئی بھی مہذب قوم یا فرد اپنے نونہالوں کو علم و دانش سے ہٹا کر کھیل کود میں نہیں لگانا چاہے گا، مثبت سرگرمیوں اور اچھی صحت کیلئے کھیلوں کی اہمیت ایک حد تک ضرور ہے اس سے آگے قومی ترقی کی خاطر ہماری ضرورت مختلف شعبہ ہائے حیات کے ماہرین کی ہے، علم و ہنر میں مسابقت کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ علم و تحقیق کی ہم کتنی قدر افزائی کرتے ہیں؟ مثال کے طور پر ہمارے ڈاکٹر اشتیاق احمد ایک ریسرچ سکالر ہیں جنہوں نے برسوں کی محنت اور لگن سے تحقیقی شاہکار تیار کیے پنجاب کے بٹوارے اور پنجابیوں کے دکھوں پر بھی اعداد و شمار کے ساتھ بھرپور کام پیش کیا ہے، ان کیلئے تو مریم نواز، ان کے چچا جان یاآصف زرداری نے کبھی 10کروڑ چھوڑ دس لاکھ دینے کا اعلان نہیں کیا بلکہ شاید ہمارا میڈیا اس نو کی جدوجہد کو جدوجہد ہی نہیں مانتا۔ افسوس نوبل انعام حاصل کرنے یا علمی و ادبی خدمات سر انجام دینے والے تو ہرگز ہمارے قومی ہیرو نہیں البتہ کرکٹ کی بال یا جیولین پھینکنے والے ہمارے قومی ہیرو ہیں اس سے آخر ہم اپنی نئی نسلوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ یہ کہ پیارے بچو تمہیں پڑھائی لکھائی یا خدمت میں آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں ہے مدرٹریسا یا عبدالستار ایدھی تمہارے رول ماڈل نہیں ہیں بس کرکٹ کھیلا کرو اور جیولین پھینکا کرو۔ اے غریب قوم کے امیر لیڈرو!، سیاست دانو! اور صحافیو! تم اپنے نونہالوں کو کیا سبق سکھا رہے ہو؟ درویش کھیلوں کا قدردان ہے لیکن خدارا جس کی جو اہمیت ہے وہی رہنے دو اور پھر ہمارے کھلاڑیوں کا جو ذہنی معیار ہوتا ہے خدا کے واسطے اس کا تقابل علم و دانش سے نہ کرو کسی نوبل انعام یافتہ کو اونچے عہدے پر بٹھانا تو سمجھ میں آتا ہے حالانکہ اس کی بھی متعلقہ فیلڈ میں مہارت دیکھی جانی چاہیے مگر کسی کھلاڑی کو قومی قیادت پر فائز کرنے کا سوچنا یا یہ خیال کرنا کہ کھلاڑی صاحب اپنے بھاشن میں نہ جانےعلم و عرفان اور شعورو تدبر کے کون سے موتی بکھیریں گے سوائےخود فریبی کے کچھ نہیں۔

مہنگائی اورغربت کی ماری پریشان حال قوم کے ٹیکسز سے 40 کروڑ کے انعامات، ہلال امتیاز اور اتنی زیادہ مہنگی گاڑیاں، ناقابل فہم ہیں، اس غیر متوازن رویے سے دیگر اہل مگر نظر انداز کیے گئے کھلاڑیوں کو کیا ذہنی اذیت نہیں پہنچے گی؟، ویسٹ میں کسی کو اتنا ملتا تو اس نے ٹو تھرڈ کسی رفاہی و خیراتی ادارے کودے دینا تھا، جبکہ ہمارے لوگ تو وقف کی رقوم بھی کھا جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سلائی مشینوں سے اربوں کمائے ہیں، درویش کی نظر میں اس کھلاڑی کیلئے40 لاکھ کے انعامات بھی زیادہ تھے، کہاں کا انصاف ہے یہ کہ لیسکو اپنے رولز کو مروڑ کر ایک ان پڑھ کو اٹھارویں سے بڑھا کر 19واں گریڈ دیدے حکومتی وصحافتی حلقوں میں کوئی ہے جو ایسی جنونی و غیر متوازن ذہنیت کے آگے بند باندھے، یہاں لوگ بجلی کے بلوں، مہنگائی کی اذیت سے مر رہے ہیں 25 کروڑ عوام بے یارو مددگار ہیں غربت کی وجہ سے ہمارے ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں دوسری طرف لیڈر دیالو بنے کروڑوں کی پبلک منی کھلاڑیوں پر لٹا رہے ہیں، بالکل ایسے جیسے’’مال مفت دل بے رحم‘‘۔

تازہ ترین