ممتاز شاعر سرور بارہ بنکوی 30جنوری، 1919ء کو بارہ بنکی، اترپردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سیدسعید الرحمٰن تھا۔ مشرقی پاکستان میں انھیں ترقی پسند شاعر کہا جاتا تھا۔ سُرور بارہ بنکوی نے یادگار فلمی نغمات لکھے ۔ وہ صرف فلمی نغمہ نگار ہی نہیں غزل اور نظم کے بھی باکمال شاعر تھے۔ ان کے شعری مجموعے سوز گیتی اور سنگ ِآفتاب کی نام سے شائع ہوئے۔ وہ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھے۔
انھوں نے مشہور پاکستانی فلم آخری اسٹیشن بنائی۔ اُنہوں نے’ تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے، ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے‘، ’کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں ‘جیسے لازوال گیت تخلیق کیے۔اردو کے معروف نقاد نظیر صدیقی، مرحوم کی شریک حیات،فرحت پروین ملک نے اپنی کتاب’’یادوں کا سندر بن‘‘ میں ’’تصویر۔ سرور بارہ بنکوی‘‘ کے عنوان سے ایک پر اثرخاکہ قلم بند کیا، اِسے پڑھ کر آپ بھی لطف اندوز ہوں گے۔
’’روشنائی ‘‘ کراچی میں ’’آدھامسلمان‘‘ (نظیر صدیقی کاخاکہ‘ پڑھ کر ہماری بیٹی نے نہایت سنجیدگی سے کہا، ’’آپ نے مسز نظیر صدیقی کے نام سے کیوں نہیں لکھا ، آپ کانام کون جانتاہے ۔‘‘رخشی کی اس بات سے مجھے سرور بارہ بنکوی کی بات یاد آگئی، جب انہوں نے کہا:
’’اگر میلاد کے دعوتِ نامہ پرمسز نظیر صدیقی لکھ دیتیں تو میں عارفہ اور بچیوں کو بھیج دیتا۔ ہم لوگ سوچتے رہ گئے کہ یہ دعوت نامہ کہاں سے آیاہے ۔ آئندہ اس طرح کی کوئی بات ہوتومسزنظیر صدیقی لکھیں، آپ کا نام کون جانتاہے۔‘‘
سروربھائی کی یہ نصیحت میرے دماغ میں ایسی جاکر ٹھکی کہ میں اپنا نام لکھنا بھول گئی۔ دوسرے ہی لمحے میری آنکھوں کے سامنے اسلام آبا د کی ایک شام ٹمٹمائی ۔ نظیر صاحب کہہ رہے تھے، ’’یہ شناختی کارڈ کافارم ہے، دستخط کرو‘‘ میں نے آنکھ بند کرکے مسز نظیر صدیقی لکھ دیا۔ ’’یہ کیا لکھا ہے تم نے ، اپنا نام لکھیں ۔ مسز نظیر صدیقی توکوئی بھی ہوسکتی ہے
ساری زندگی انھوں نے مجھے اپنے جملوں کی زد میں رکھا۔
’’کیاسوچ رہی ہیں ؟‘‘ رخشی نے مجھ سے پوچھا اورمیں جوسوچ رہی تھی بیٹی کو بتادیا۔
’’یہ تواچھی علامت ہے ،۔ اس کے معنیٰ ہیں آپ کاذہن ٹھیک کام کررہاہے۔ یہ لیں رجسٹر اورقلم ، انھیں باتوں کو لکھتی رہیں۔ آپ کا وقت اچھا گزر جائےگا۔‘‘
ڈاکٹرصاحبہ نسخۂ وقت گزاری بتاکر مطمئن ہوگئیں وقت کس کے روکے رکا ہے ،مگر بڑھاپے میں آکر وقت بھی رک رک کرچلنے لگتا ہے۔ عمر کایہ حصّہ بھی بچپن کی طرح ایک دم گزرجائےتو کتنا اچھا ہو۔
ہماری شادی کوایک ڈیڑھ برس ہواتھا۔ 1966ء کی ایک دوپہر کالج سے آتے ہی نظیر صاحب کہنے لگے ،’’جلدی سے ایک آدھ چیز اوربنالو ، میرے ساتھ سرور ؔبھی ہیں‘‘۔میں نےتعمیلِ ارشاد میں ذرا بھی دیرنہیں لگائی۔ ’’کھانے کے بعد چائے لے کر آؤ اوران سے مل لو۔ْ ‘‘ نظیر صاحب ہدایت دے کرباورچی خانے سے چلے گئے۔
میز پرچائے رکھ کر سلام کرکے میں خاموشی سے بیٹھ گئی ۔ نظیر صاحب کی فرمائش پروہ ترنم سے اپنی غز ل سنانے لگے ۔میں اٹھ کر جانے لگی تونظیر صاحب نے کہا ، ’’یہ کیا حماقت ہے ۔ بیٹھو ۔‘‘ان کے لہجے میں ہلکی سی ڈانٹ تھی۔
’’آپ کی بڑی ہمت ہے ۔ نقاد سے شادی کی ہے ،‘‘ سروربارہ بنکوی پہلی بار مجھ سے مخاطب ہوئے ۔ یہ میری ان سے ملاقات تھی۔
’’ٓآپ کے سرور، کی بات مجھے بالکل اچھی نہیں لگی۔ آئندہ ہم آپ کے کسی دوست سے نہیں ملیں گے۔ ‘‘ میں نے نظیر صاحب کواپنا فیصلہ سنادیا۔
’’میرے پرانے دوست ہیں، ایک جملہ کہہ دیا تواس میں بُرا ماننے کی کیا بات ہے ۔ آپ جملہ سہنا سیکھیں۔ ‘‘
نظیر صاحب اپنے دوستوں پر تنقید سننے کے عادی نہیں تھے۔ (کم ازکم میری زبان سے ۔) رفتہ رفتہ میں نے جملہ سہنا اور بولنا بھی سیکھ لیا۔ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ ہمارےگھر چھٹ بھیّے قسم کے لوگوں کی آمدورفت میں کمی آگئی اور میں نےخدا کاشکر ادا کیا۔
’’کل رات سرورنے ہمیں کھانے پر مدعوکیاہے، تیاررہنا۔ ‘‘ نظیر صاحب نے اپنے پروگرام سے آگاہ کیا۔
شام سے کچھ دیر پہلے ہم دونوں سرور بھائی کے گھر پہنچ گئے۔ وہاں غیرمعمولی ہلچل دیکھ کر میں نے عارفہ بھابھی سے پوچھا ، ’’ کیاآپ نے کچھ اورلوگوں کوبھی بلایاہے۔ ؟‘‘
’’نہیں، صرف آپ لوگ ہیں۔آج میری خالہ ہندوستان سے آرہی ہیں۔(سرور کی والدہ ان کی خالہ تھیں) خیر وہ آئیں تو کی مجھے بنگالن سمجھ کر لئے دیئے رہیں جلدہی بھابھی نے ان کی غلط فہمی دورکردی۔ پھر وہ مجھے اپنے سفر کی روداد سنانے لگیں۔
ان کے لہجے میں اپنے بچوں سے دوری کادکھ تھا۔کہنے لگیں ’’یہ پاکستان حلال روزی کی تلاش میں آئے تھے۔ یہاں آکر حرام کاری میں پڑگئے ۔ یہ سب کچھ کرنا تھا تو وہیں رہتے۔‘‘
ان کا ارشارہ اپنے بیٹے کے فلمی کاروبار کی طرف تھا ۔ ہم اوربھابھی ان کی اس بات پر اپنی ہنسی چھپانےمیں ناکام رہے۔
’’سرورنے تمھارے بارے میں ایک دلچسپ جملہ کہاہے کہ،تمہاری بیوی کی خوبی یہ ہے کہ وہ بہار کی ہے، مگر بہاری نہیں لگتیں ۔‘‘ مجھے ان کا جملہ پسند نہیں آیا۔
ایک شام میری نئی نویلی ممانی ہمارےگھر تشریف لائیں ۔ باہر کمرے میں چائے کاسامان دیکھ کر مجھ سے پوچھا، ’’کوئی آیا تھا کیا؟‘‘
’’جی ہاں ، ابھی عطاء الرحمٰن جمیل اور سرور بارہ بنکوی گئےہیں۔ ‘‘
’’اچھا ، سرور بارہ بنکوی بھی آتے ہیں، تم ہمیں ان پیالیوں میں چائے مت دینا، ‘‘ میں سناٹے میں آگئی ۔
پینتیس چالیس برس قبل ان باتوں کوذرا معیوب سمجھا جاتاتھا۔ خداکے فضل وکرم سے اب صورتِ حال قطی مختلف ہے ۔ دنیا چھوٹی ہوگئی ہے اس لئے سب نے اپنا دل بڑا کرلیا ہے۔
1969ء دسمبر کی ایک اداس شام ہم نے اپنے ساتھ کراچی جانے والے سامان کاآخری جائزہ لیا۔ غالب کی تصویر چھوڑ جائیں ، کراچی میں بہت مل جائیں گی۔ اتنی بڑی فریم شدہ تصویر کاپلین میں آنا مشکل ہے ، مجھ پر سخت وحشت طاری تھی۔
ہمیں جانے کی خوشی کم ، بھرا گھر چھوڑ جانے کاغم زیادہ تھا۔ نظیر صاحب گھرمیں رہ جانے والی کتابوں کودیکھتے اوراپنے ہاتھوں سے شیلف پراخبار وغیرہ ڈالتے اور پانی پی کر بیٹھ جاتے ۔ ایسے میں ہم نے انھیں غالب کی تصویر چھوڑ جانے کامشورہ دیا تو ان کادکھ غصّے میں تبدیل ہوگیا۔
’’یہ تصویر سرور کاتحفہ ہے ۔ وہ میرے لیے کراچی سے لے کر آئے تھے۔ آپ اپنا سامانِ جہالت چھوڑجائیں ، ‘‘
نظیر صاحب نےتصویر کو احتیاط سے کاغذ میں لپیٹ کر سامان کے ساتھ رکھ دیا۔ وہ تصویر آج بھی ہمارے گھر میں محفوظ ہے
ایک دوپہر نظیر صاحب یونیورسٹی سے آئے تو باہر ہی سے مجھے آواز دی ، ’’فرحت ،دیکھو کون آیا ہے۔ ‘‘
رخشی باپ کی آواز سن کر مجھ سے پہلے ڈرائنگ روم میں چلی گئیں ۔ میں جب کمرے میں آئی تو نظیر صاحب پہلی جماعت میں پڑھنے والی بیٹی سے سروربارہ بنکوئی کا تعارف کرواتے ہوئے کہہ رہے تھے
’’بیٹا یہ تمھارے سرورانکل ہیں، اُردو کے بڑے شاعر اور ہاں تم کھانا لگاؤ میں لباس تبدیل کرکے آتاہوں۔ ‘‘
نظیرصاحب اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں کچن میں ،اچانک سروربھائی کی تیز آواز آئی۔’’بھابھی آپ کہاں ہیں، مجھے نقاد کی اولاد سے بچائیں ۔ ‘‘
میں آتے ہی رخشی کو ڈانٹنے لگی۔
’’امی میں نے کچھ نہیں کہا، صرف انکل سے یہ پوچھا کیاآپ علامہ اقبال سے بھی بڑے شاعرہیں ؟‘‘
اب سروربھائی کوہنسی آگئی اورٹھیٹ پوربی لہجے میں بولے ، ’’یہ بات جاکے تم اپنے باوا سے پوچھو۔ ‘‘پھر مجھ سے کہنے لگے ، ’’بڑی با ت ہے آپ کی ، نقاد اور نقاد کی اولاد دونوں کو سنبھالے ہوئی ہیں۔ ‘‘
اب کے مجھے ان کی یہ بات بُری نہیں لگی،
اتنے میں نظیر صاحب بھی آگئے ، ’’کیا ہورہا ہے ؟ انکل سے کیاباتیں ہوئیں؟‘‘ انہوں نے رخشی سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں ابو، میں نے انکل سے اتنا پوچھا کیاعلّامہ اقبال سے بھی بڑے شاعرہیں؟ بس انکل نے امی کوبلالیا۔‘‘میں ، نظیر صدیقی اورسروربھائی کو ہنستا ہوا چھوڑ کر کچن میں آگئی۔ اس دلچسپ واقعے کے بعد نظیر صاحب اپنے شاعر ادیب دوستوں کابچوں سے تعارف کرانےمیں محتاط ہوگئے۔
ڈھاکہ چھوڑنے کے بعد سرور بھائی سے ہم لوگوں کی یہ پہلی ملاقات تھی۔میز پر کھانا لگا کر میں کچھ سمیٹنے میں لگ گئی۔
سرور بھائی نے خوش گوار موڈ میں کھانا کھایا۔ حسب روایت نظیر صاحب کی فرمائش پراپنی غزلیں سنانے لگے، جسے ہم نے ریکارڈ کرلیا۔ وہ ہمیشہ مجھ سے اسی شفقت سے ملتے رہے ۔ انھوں نے کبھی نظیر صاحب سے یہ نہیں کہاکہ ’’تمھاری بیوی تمھارے دوستوں کی عزّت نہیں کرتی ، بلکہ وہ تمھاری عزت بھی نہیں کرتی ۔‘‘
خداعیش برنی کومعاف کرے ، ان کے اس زہریلے جملے کے اثرات نظیر صاحب کے ذہن میں ہمیشہ رہے۔
نظیر صدیقی کے پُر ستاروں ، کے اس قسم کے جملوں سے ایک مضمون تیار کیا جاسکتاہے ۔ افسوس ہم عظیم ہیں نہ ادیب ، اس لئے یہ کام کرنے سے قاصر ہیں۔ سروربھائی کی زبان سے ہم نے کبھی کسی کی شکایت نہیں سنی ۔ (بیوی بچوں کی بھی نہیں ) ادبی غیبت کرتے بھی نہیں سنا،البتہ کبھی کبھار اپنے حال اورمستقبل کے بارے میں کچھ کہہ جاتے تھے۔
’’نظیر! میں ایمن کو چھوڑنے اسلام آباد آیا ہوں۔ نیشنل بینک میں ان کی جاب ہوگئی ہے۔ ٹریننگ کے سلسلے میں ان کویہاں رہناہوگا۔ آپ لوگ خیال رکھیے گا۔‘‘
سرور بھائی بیٹی کی وقتی جدائی سے اداس تھے۔ اولاد کتناہی پڑھ لکھ جائے والدین سداان کے لئے فکر مندرہتے ہیںَ سرور بھائی کواپنی بڑی بیٹی ایمن سے خاص لگاؤتھا۔
’’تم فکرمت کرو۔ اسلام آباد محفوط جگہ ہے۔ پھر ہم لوگ ہیں۔ ‘‘ نظیرصاحب نے بڑی اپنائیت سے انھیں اطمینان دلایا۔ خدا کا شکر ہے ایمن کو ہماری کسی قسم کی مدد کی ضرورت نہیں پڑی۔
’’اپنا فون نمبر بتاؤ میں ایمن کودے دوں گا،‘‘ سروربھائی ، نظیر صاحب نےانھیں جواب دیا، ’’تم میرے پڑوسی کافون نمبر رکھ لو، میں بوقت ِ ضرورت استعمال کرتا ہوں۔ ‘‘ نظیر صاحب نے پڑوس کافون نمبر دیتے ہوئے کہا۔
’’بھابی گھر میں گاڑی نہ ہو مگر فون ضرور ہوناچاہئے۔ ابھی آپ کے بچّے چھوٹے ہیں، جب یہ کالج یونیورسٹی جائیں گے توآپ کو فون لگوانا ہوگا۔ گھر چھوٹا ہو مگر علاقہ اچھا ہو، ‘‘ سرور بھائی کی یہ نصیحت بھی میرے ذہن میں کہیں نہ کہیں محفوظ ہوگئی۔
جب ہماری بڑی بیٹی کاداخلہ میڈیکل کالج میں ہوا تومیں نے بھاگ دوڑ کردو ماہ میں فون لگوالیا۔ ( جب کہ ان دنوں فون لگوانا ایک کارنامہ سمجھاجاتا تھا) ، سرور بھائی نے غلط تو نہیں کہا تھا۔ آج ہمارے پاس تین کمروں کاچھوٹا سافلیٹ ہے مگر علاقہ اچھا ہے۔
ایک شام پڑوس سے بچی نے آکر کہا، ’’انکل گھر پرہیں؟ انکے دوست کا فون آیا ہے ۔‘‘
’’کہہ دو،وہ گھرپرنہیں ہیں ۔ تم ان کانام پوچھ لو۔ ‘‘ میں نے اپنا کام کرتے ہوئے جواب دیا۔ رات کے کھانے کی تیاری کے ساتھ ساتھ بچوں کواسکول کاکام کروارہی تھی اس لیے جانے کاموڈ نہیں ہوا۔
’’آپ آکر خودبات کرلیں، ‘‘ بچی مجھے مشورہ دے کر ہوا ہوگئی۔ میں چولھے کی آنچ دھیمی کرکے فون سننے چلی گئی۔
’’السلام علیکم بھابھی۔‘‘
’’آپ کون ہیں ؟ ‘‘ میں نے سلام کاجواب دیتے ہوئے کہا۔
’’بھابھی میں بول رہاہوں۔‘‘
( یاالہٰی مجھے اپنی حالت پررحم آگیا)
’’بھائی آپ کا کوئی نام توہوگا۔ ‘‘ ( ان دنوں فون پر آواز پہچاننے میں بہت کچی تھی۔ آج بھی مجھے دقّت ہوتی ہے )۔
’’میں سرور بول رہاہوں۔ ‘‘ نہایت صبروتحمل اور شائستگی سے جواب ملا ،دل میں تھوڑی خفت ہوئی مگر میں نے ظاہرنہیں کی۔
’’نظیر صاحب گھر پرنہیں ہیں ۔‘‘ یہ کہہ کر میں بات جلدازجلد ختم کرنا چاہتی تھی۔
’’میں آپ کے گھر سے بہت قریب ہوں۔ میلوڈ ی سے بول رہاہوں۔ آج نائٹ کوچ سے کراچی جارہا ہوں، پھر وہاں سے ڈھاکہ چلاجاؤں گا۔ ‘‘سرور بھائی نے اپنے پروگرام سے مجھے آگاہ کیا۔
’’مگر وہ تو گھر پر نہیں ہیں۔ ‘‘میں نے انھیں یاددلایا۔
’’میں کچھ دیر انتظار کرلوں گا۔ ‘‘ سروربھائی نے اپنی خواہش کااظہارکیا۔
’’پتہ نہیں وہ کب تک گھرآئیں ۔ آپ کوخواہ مخواہ زحمت ہوگی۔ ‘‘میراذہن اپنے کام میں اٹکا ہواتھا۔ (دوسرے معنوں میں چولھے بھاڑ میں تھا۔) ۔
’’ٹھیک ہے ، آپ نظیر کو میرا سلام کہہ دیں گی، میں ڈھاکہ میں آپ کے ایڈن گرلز کالج کوآپ کا سلام کہہ دوں گا، ان راستوں کوبھی سلام کروں گاجہاں سے سب یونیورسٹی جایاکرتے تھے۔ محمد پورجا کرآپ کے گھر کو بھی آپ کاسلام کہوں گا اور اس کی تصویر بھی لانے کی کوشش کروں گا۔ ‘‘
’’اچھا سرور بھائی ، خداحافظ۔‘‘
ان کی کسی بات کاجواب دیے بغیر میں نے فون رکھ دیا۔ نظیر صاحب نے آتے ہی عادتاً دریافت کیا، ’’کوئی آیاتھا؟‘‘
’’کوئی نہیں آیا، البتہ سرور بھائی کافون آیاتھا۔ وہ ڈھاکہ جارہے ہیں۔ ‘‘میں نے انھیں بتایا۔
’’تم انھیں تھوڑی دیر کے لئے بلالیتیں ، ملاقات ہوجاتی۔‘‘
’’وہ توآناچاہ رہے تھے مگر میں نے روک دیا۔‘‘
’’آپ توا س کام میں ماہر ہیں۔ ‘‘
’’آپ کوسلام کہہ رہے تھے۔ ‘‘ میں ان کی تنقیدسنی ان سنی کرتے ہوئے ،سرور بھائی کی پوری گفتگو بتائی ۔
’’وہ ڈھاکاجارہے تھےاس لئے ان کی یہ حالت تھی۔‘‘
نظیر صاحب کی آنکھوں میں کوئی پرانی مسکراہٹ ابھری۔’’ میں ڈھاکا جاؤں تو میری کیفیت بھی ایسی ہی ہوگی۔ آپ پریشان نہ ہو۔ ‘‘ نظیرصاحب نے مجھے مطمئن کیا۔ میں جب 2002ء میں ڈھاکاگئی تومیراحال بھی سرور بھائی سے مختلف نہیں تھا۔
ٹی وی پرڈرامہ ختم ہونے والا تھا۔ نظیر صاحب کسی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے اورفوراً ٹی وی کی آواز بندکردی ۔ انھیں تیز آواز بُری لگتی تھی۔ میں کچن میں چلی گئی ، جب چائے لے کرآئی توخبر نامہ شروع ہوچکا تھا۔ میں نے ٹی وی کی آواز ذرا اونچی کی۔ خبر سنتے ہی میں نے گھبراہٹ میں آواز تیز کردی مگر وہاں موت کی خبر ختم ہوچکی تھی۔ زندگی کی تصویر چل رہی تھی۔
’’کیا کررہی ہو ؟ ‘‘ نظیرصاحب ٹی وی کی آواز کم کرتے ہوئے بولے ۔
’’سروربھائی کا انتقال ہوگیا۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو! ‘‘ نظیر صاحب نے بھی گھبراکرآواز تیزکردی ،پھرمکمل بند ۔
مہمان ہماری ذہنی حالت دیکھ کرخاموشی سے چلے گئے۔
’’پوری خبرسناؤ، سرور کے بارے میں کیاسناتم نے ؟‘‘ نظیرصاحب تفصیل جانناچاہتے تھے۔
’’میں نے صرف اتنا سنا، بارہ بنکوی کا انتقال ہوگیا۔ ان کے علاوہ اورکون ہو سکتاہے۔‘‘ میں نےیقین کے ساتھ کہا۔
’’مجھے بھی یہ خبر درست معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘ ضبطِ غم سے نظیر صاحب کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔
16دسمبر 1971ء کی رات کے بعد دوسری رات تھی جب ہم لوگوں نے کھانا ٹونگ کرچھوڑ دیاتھا۔ ’’جنگ‘‘ راولپنڈی کے فلمی صفحے پراداکارہ شبنم کا انٹرویو دیکھا، ’’سرورصاحب ڈھاکا فال کے بعد بہت بدل گئے تھے۔ وہ پہلے جیسے نہیں رہے تھے۔ بہت محتاط زندگی گزار رہے تھے۔ مخلص انسان تھے۔ ہم لوگوں کوان کی بے وقت موت کا دکھ ہے ۔ کاش ! وہ جنگی قیدیوں کے حوالے سے اپنی فلم بناسکتے !‘‘
’’سرور پر مضمون لکھاہے، پڑ ھ لو۔ کاش ! میں نے یہ مضمون ان کی زندگی میں لکھا ہوتا۔ شریف انسان تھے ،کبھی اشارتاً بھی مضمون لکھنے کے لئے نہیں کہا۔ ‘‘ نظیر صاحب کے لہجے میں تاسف تھا۔
ڈھاکافلم’’آخری اسٹیشن ‘‘ کے فلم ساز کی زندگی کاآخری اسٹیشن بن گیا۔ عارفہ بھابھی زندگی کے پلیٹ فارم پر سے دکھ سکھ کی گٹھری اٹھائے ایک دن ملکِ عدم روانہ ہو گئیں۔ نظیر صدیقی کی کتابِ زندگی دیکھتے ہی دیکھتے کتبہ بن گئی اور میں حال کے فریم میں ماضی کی تصویر لگانے پرمامور کردی گئی۔