• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علی حیدر سولنگی، کراچی

عابد اپنی والدہ کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتا تھا وہ بہت چھوٹا تھا جب اس کے والدکا انتقال ہوگیا تھا۔ اس کی ماں سلائی کڑھائی کرکے گھر کا خرچ چلاتی تھی۔ عابد فرمابردار، ذہین اور فراخ دل تھا۔ وہ صبح اسکول جاتا اور دوپہر کے بعد گاؤں کی ایک دوکان پر ملازمت کرتا تھا۔ 

وہاں سے اسے جو تنخواہ ملتی، اس میں سے آدھی اپنی پڑھائی کے اخراجات کے لئے اپنے پاس رکھ لیتا اور باقی اپنی ماں کو دے دیتا ، تاکہ گھر کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ دکان کا مالک حاجی عبداللہ ایماندار ، نیک اور مہمان نواز آدمی تھا باہر سے جو بھی مہمان آتے وہ اس کی چوپال میں ٹہرتے ،جہاں ان کے لئے رہائش اور کھانے پینے کا بہترین انتظام ہوتا۔

عابد کا تعلق گاؤں کے اس قبیلے سے تھا، جن کے ہاتھ اور پاؤں میں تین، چھ یا نو انگلیاں تھیں۔ عابد کو ایک دفعہ دکان کے مالک نے بتایا تھا کہ یہ ایک جنیاتی (genetic) نقص ہے، جس کے باعث ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیاں تعداد میں زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیڑھی بھی ہوتی ہیں۔ عابد کے ہاتھوں اور پاؤں میں بھی نو نو انگلیاں تھیں۔

عابد جب گیارہویں جماعت میں داخل ہوا تو اُس نے علم حیاتیات اور علم کیمیا کا انتخاب کیا کیوں کہ یہ اس کے پسندیدہ مضامین تھے۔ساتھ ہی اس نے جنیاتی سائنس کا بھی مطالعہ شرو ع کر دیا۔

ایک دن شہر کی بڑی یونیورسٹی سے پروفیسر ڈاکٹر وسیم احمد نامی ایک جینیاتی سائنسدان ان کے گاؤں اس قبیلے پر تحقیق کرنے آئے ۔ وہ کچھ عرصہ حاجی عبداللہ کی چوپال میں ٹہرے ۔حاجی نےاور عابد کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ پروفیسر صاحب کی ضروریات کاخیال رکھے۔ عابد جنیات کے بارے میں ان سے معلومات لیتا رہتا تھا۔ اس کی جینیات میں معلومات اور دلچسپی دیکھ کر پروفیسر صاحب بےحد متاثر ہوئے۔

انہوں نےارادہ کیا کہ وہ اسے اپنے ساتھ شہر لے جائیں گے اور اعلیٰ تعلیم دلوائیں گے، لہذا طے یہ پایا کہ عابد جیسے ہی بارہویں جماعت پاس کرے گا تو مزید تعلیم کے لئے یونیورسٹی میں داخلہ لے گا۔ اس دوران پروفیسر صاحب عابد کو اچھا خاصا وظیفہ بھیجا کرتے، تاکہ وہ گھر کی کفالت سے بے فکر ہوکر اپنی پڑھائی پر دھیان دے۔ وقت گزرتا رہا۔ عابد نے بارہویں جماعت اچھے نمبروں سے پاس کرلی پھر پروفیسر صاحب کےکہنے پریونیورسٹی میں شعبہ بایوکیمسٹری میں داخلہ لیا۔ وہ بہت محنت سے پڑھتا اور تجربہ گاہ میں تجربے کرتا رہتا۔

پروفیسر صاحب نے عابد کے قبیلے پر کئی سال کی تحقیق کے بعد یہ رائے دی کہ ایک ہی خاندان میں شادیوں کی وجہ سے یہ جسمانی نقص پیدا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنے کئی تحقیقی مقالے بین الاقوامی جرائد میں بھی شائع کروائے۔

عابد نے ماسٹرز کی ڈگری اعلیٰ اعزاز کے ساتھ حاصل کی اوراسی یونی ورسٹی میں لیکچرار مقرر ہوگیا ۔ تدریس کے ساتھ وہ اپنےہی ڈپارٹمنٹ میں اپنے قبیلے پر پی ایچ ڈی کرنے لگا۔

پی ایچ ڈی مکمل کرنے میں عابد نے ایک نیا ایکس لنکڈ(X-LINKED)جین (GENE) دریافت کیا، جس کی وجہ سےاس کے قبیلوں کے لوگوں میں یہ نقص تھا۔ یہ ایکس لنکڈ جین اس جگہ پر پایا جاتا ہے جہاں کروموسوم (Chromosom) ہوتا ہے۔ ایکس لنکڈ جین کے باعث خلیے کی ناقص افزائش ہوتی ہے ۔ جس کا اثر پیدائش کے مرکز یعنی Centromericپر پڑتا ہے۔ 

جین تھراپی کے ذریعے ڈاکٹر عابد نے اس جینیاتی نقص پر قابو پانے کی کوشش کی اس جین تھراپی کے ذریعے کسی بھی آدمی کا جین تبدیل کیا جاسکتا ہے، پھر آہستہ آہستہ یہ نقص ختم ہوجاتا ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کو جینیات کی اس تیکنیک کے ذریعے درست کیا اب وہ گاؤں کے باقی لوگوں کا یہ نقص دور کرنے میں مصروف ہے ،تاکہ ان کا محرومی کا احساس دور کیا جاسکے۔

بچو! یہ معلوماتی کہانی پڑھ کرآپ بھی چاہیں گے کہ عابدکی طرح آپ بھی اپنی تعلیم سے فائدہ اُٹھائیں اور ایسے شعبوں میں کام کریں جس سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔