ادیب کا تعارف کہانی کا انتخاب۔ علی حسن ساجد
بچوں کے معروف ادیب ، سفر نامہ نگار قمر علی عباسی 1938 میں امروہہ میں پیدا ہوئے۔ اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کے سلسلے میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 32 سال مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے بچوں کے لئے کئی کتابیں تخلیق کیں، جن میں کائیں کائیں، میاؤں میاؤں اور شیشے کی آنکھ شائع ہوئیں اور اس کے بعد انہوں نے بچوں کے لئے باقاعدہ لکھنا شروع کیا اور خوب لکھا، ان کی لکھی ہوئی کتابیں شرارتی خرگوش، سمندر کا بیٹا اور بہادر علی بچوں میں بے حد مقبول ہوئیں۔
پیارا پاکستان سیریز میں انہوں نے بچوں کے لیے چوہدری رحمت علی، علامہ اقبال اور بانی پاکستان محمد علی جناح پر کتابیں تحریر کیں. پاکستان ٹیلی ویژن نے ان کے ناول پر مبنی ڈرامہ بہادر علی بھی ٹیلی کاسٹ کیا، قمر علی عباسی نے سنگاپور کی سیر کے عنوان سے بچوں کے لئے سفر نامہ بھی تحریر کیا۔
ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 2000 ء میں حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا۔ 31 مئی 2013 ء کو، قمر علی عباسی کا امریکاکے شہر نیویارک میں انتقال ہوا،ایک ادیب ایک کہانی میں آج ان کی تحریر کردہ کہانی”شریر بھالو“ پڑھیں اور لطف اندوز ہوں۔
ایک ہرے بھرے جنگل میں بہت سارے بھالو رہا کرتے تھے، جہاں میٹھے پانی کے چشمے، سرخ سرخ سیب اور رسیلے پھل لگےہوئے تھے۔ اسی جنگل میں مانو نام کا ایک شریر بھالو بھی رہتا تھا، جس کا کام سارا دن شہد کے چھتے تلاش کرنا اور چھوٹے چھوٹے پرندوں کو تنگ کرنا تھا۔ کسی کے گھونسلے سے انڈے نکال کر گھاس میں چھپا دیئے توکسی جانور کے ننھے منے بچوں کو اٹھا کر چشمے میں نہلا دیا اور کسی درخت کو خواہ مخواہ ہلا دیا۔
یہ سب اس کے خیال میں دلچسپ شرارتیں تھیں۔ وہ جنگل کے دوسرے جانوروں کے شرارتی بچوں کا سردار تھا اور سب اسے شہزادہ پکارتے۔ جب یہ سب مل کر شرارتیں کرتے تو سارا جنگل سر پر اٹھا لیتے۔ چھوٹے جانور ڈر کر اپنے اپنے گھروں میں چھپ جاتے۔
ایک دن مانو میاں ایک جھاڑی سے پکے پکے سرخ بیر چن کر کھا رہے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ چند آدمی جنگل میں داخل ہوئے۔ مانو ڈرے تو بہت کہ نہ جانے یہ کون سے جانور ہیں۔ کہیں دیکھ نہ لیں اور پھر نہ جانے کیا مصیبت آجائے، مگر تھے ذرا دل والے جھاڑی میں چھپے بیٹھے رہے۔ مانو میاں نے زندگی بھر انسان کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ شکاریوں کو دیکھ کر تو وہ یہی سمجھے کہ یہ بھی ان کی طرح کے جانور ہیں۔
شکاری تو چلے گئے، مگر مانو کو ایک نئی سوچ دے گئے۔ وہ ہر لمحے یہی سوچتا رہا کہ آخر یہ جانور کس جنگل سے آئے تھے۔ میں وہاں ضرور جاؤں گا، رات کو سویا تو خواب میں دیکھا کہ وہ بھی بڑا سا ہیٹ پہنے ایک کندھے پر دوربین دوسرے پر تھرماس لٹکائے پھر رہاہے۔
صبح اٹھا تو وہی فکر و سوچ۔ اسی جنگل میں ایک کوا بھی رہتا تھا۔ اس نے جو یہ معاملہ دیکھا تو جھٹ تاڑ گیا کہ معاملہ گڑبڑ ہے، اس نے مانو سے پیار سے پوچھا تو پتا چلا کہ اُسے شکاری پسند آگئے ہیں۔ کوا مانو کے ہاتھوں تنگ تھا۔ جھٹ کہنے لگا۔
’’تمہیں ان کے جنگل میں لے چلوں جہاں سے وہ آئے تھے، وہاں ایسے مزے ہیں کہ بس‘‘ کوے نے کچھ اس طرح نقشہ کھینچا کہ میاں مانو ہوگئے چت اور لگے منصوبے بنانے۔
مانو جن بچوں کا سردار تھا وہ سب سمجھ رہے تھے کہ یہ ر بیمار ہوگیا ہے۔ ایک دن مانو نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’’وہ ایسا جانور بننا چاہتا ہے جیسے کہ چند دن پہلے کچھ جانور یہاں آئے تھے‘‘۔ اب بھلا بچوں کو کیا یاد رہتا کہ چند دن پہلے کون آیا تھا۔
انہوں نے لومڑی سے جاکر پوچھا۔ اس نے اپنی آنکھیں ادھر ادھر گھمائیں اور بولی۔”ارے وہی آدمی نا، وہ شکاری تھے۔ تمہیں دیکھ لیتے تو پکڑ کرلے جاتے۔ یہ شہر سے آئے تھے۔ اللہ انہیں غارت کرے۔ ہرن مار کر لے گئے۔“
”میرا خیال ہے کہ ہمیں اس جنگل میں چلنا چاہئے جہاں سے یہ آئے تھے“ مانو نے تجویز پیش کی۔
”لیکن وہاں جانے کا کیا فائدہ؟“ ننھے خرگوش نے کہا۔
”سیر و تفریح نئی جگہ دیکھنا۔ معلومات میں اضافہ ہوگا۔“ مانو نے فخریہ کہا۔
دو چار نے مانو کی ہاں میں ہاں ملائی، باقی ادھر ادھر ہوگئے۔
یہ خبر جب مانو کے ماں باپ تک پہنچی تو انہوں نے اس کے کان کھینچے اور ڈانٹا کہ ’’اب اگر تم نے شہر کا نام لیا تو ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دیں گے‘‘۔ شاید وہ اپنا ارادہ ملتوی کردیتا۔ اگر کوا نہ بہکاتا۔ وہ بار بار کہتا ”ارے یار ڈر گئے۔ یہاں کیا پڑے ہو، جب شہر سے لوٹ کر آؤ گے تو اپنے ٹھاٹ دیکھنا۔‘‘
مانو کے دو ساتھی اس کے ساتھ شہر جانے کو تیار ہوگئے۔ مانو کی ماں بہت پریشان تھی۔ وہ اسے خوب سمجھاتی کہ تمہارے لئے یہ جنگل ہی محفوظ جگہ ہے۔ یہاں سے قدم نہ نکالنا۔ مگر مانو میاں پر تو کوے کی لچھے دار باتوں کا بھوت سوار تھا۔ ماں باپ کا کہا نہ مانا۔ ایک رات اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ چل نکلے اوپر کوا اڑتا جاتا۔ نیچے یہ تینوں سفر کرتے۔
راستے میں بانس کا ایک بڑا سا جنگل آیا۔ اس میں ایک بوڑھا بندر رہتا۔ اس نے یہ قافلہ دیکھا تو پوچھا وہ کہاں کے ارادے ہیں‘‘؟ مانو نے بتایا ،’’شہر جا رہے ہیں۔‘‘
بندر ان پر خوب چیخا ”پاگل ہوئے ہو شہر جا کر مرو گے انسان تو تمہیں تلاش کرنے جنگل آیا تھا اور تم خود شہر جارہے ہو۔“مگر کوا دونوں کو الگ لے جا کر بولا۔
”یہ تم سے جل گیا بوڑھا ہے نا۔ اب چل پھر نہیں سکتا اس لیے باتیں بناتا ہے۔“
دونوں نے فیصلہ کیا کہ کل صبح دوبارہ سفر شروع کریں گے۔ صبح مانو کی آنکھ کھلی تو وہ اکیلا تھا۔ اس کے دونوں ساتھی بھاگ گئے تھے، مانو اداس ہوا تو کوے نے ڈھارس بندھائی۔
”ارے میں ابھی زندہ ہوں تمہارے ساتھ شہر چلنے کے لیے۔“
دونوں نے سفر شروع کیا۔ کئی دن گزر گئے آخر ایک رات وہ شہر کے نزدیک پہنچ گئے لو بھئی شہر آگیا۔ اب ہم مزے کریں گے۔
دور سے شہر کے مکان، سڑکیں، کارخانے نظر آ رہے تھے۔ مانو خوشی اور حیرت سے پاگل ہوا جا رہا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ بھاگ کر وہاں چلا جائے۔ کوے نے پروگرام بنایا کہ کل صبح تازہ دم ہو کر شہر جائیں گے ابھی آرام کرنا چاہیے۔ رات کو مانو سویا تو اس نے خواب دیکھا۔ وہ شفاف سڑک پر چلا جا رہا ہے بہت سے جانور اس کے پیچھے ہیں۔
وہ تالیاں بجا رہے ہیں اور آوازیں کس رہے ہیں، مگر یہ ناک میں رسی کیسی ہے؟ اس نے جھٹک دیا۔ پھر رسی۔ یہ کیا ہے؟ صبح اس کی آنکھ کھلی تو کو ا بھی غائب تھا۔ وہ گھبرایا تو بہت، مگر سوچنے لگا۔ چلو شہر تو آ ہی گیا ہے۔ اب اکیلے مزے کریں گے۔ یہ سوچ کر اس نے بھرپور انگڑائی لی اور اٹھ کر شہر کی طرف چل پڑا۔
سامنے کالے رنگ کی سڑک تھی اس پر عجیب طرح کے مکان تھے۔ مانو مارے حیرت کے چلنا بھول گیا اور ایک گھر میں گھس گیا۔ یکایک ایک زور دار ڈنڈا سر پر پڑا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ پھر آنکھ کھلی تو ناک میں رسی تھی اور ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ مانو میاں سمجھا کہ خواب دیکھ رہے ہیں تھوڑی دیر میں بیدار ہوں گے تو شہر جا کر خوب سیر کریں گے۔
یہ سوچ کر آنکھیں بندکر لیں، مگر بھوک سے برا حال تھا۔ نیند کہاں سے آتی۔ یہ حقیقت تھی۔ مانو نے چاروں طرف دیکھا۔ یہ بند جگہ تھی۔ اس طرح پڑے پڑے کئی دن گزر گئے۔ مانو کا بھوک سے یہ عالم ہو گیا کہ ہر وقت آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا رہتا۔ ہاتھ پیروں کی جان نکل چکی تھی۔ ایک دن ایک آدمی اندر آیا۔ اس نے مانو کو کچھ کھانے کے لیے دیا مانو نے وہ کھا لیا اور دوبارہ گہری نیند سوگیا۔
آپ نے بھالو تو دیکھا ہوگا۔ اس کی ناک میں رسی ہوتی ہے وہ گلی کوچوں میں عجیب عجیب کھیل دکھاتا پھرتا ہے۔ اس نے جنگل کے جانوروں کو تنگ کر رکھا تھا۔ اس نے اپنی ماں کا کہا نہ مانا تھا اور آج اس لیے لوگ اس کی ناک میں رسی ڈالے کھینچتے پھرتے ہیں۔