• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مطلوب ریاستی عوامی ضروریات کو پورا کرنے والی سماجی تبدیلی (SOCIAL CHANGE)سوشل لائنز کا صدا بہار اور بیش بہا موضوع ہے۔ یقین جانیے جملہ اقسام کے علوم کے بلند قدر کے حامل کلیدی موضوعات بھی اس وسیع البنیاد موضوع (سماجی تبدیلی) کے مقابل ہیچ ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے اطلاق و فوائد کا انحصار اس مخصوص مثبت سماجی رویے پر ہوتا ہے جسے کثیر الجہت انتہائی بامقصد حصولات سے بیمار معاشروں کی اصلاح کیلئے متعلقہ ماہرین اولین ترجیح کے طورپر اپنی قلمی و پیشہ ورانہ قومی کاوشوں کا ہدف (مثبت سماجی تبدیلی کا برپا) مقرر کرتے ہیں۔ یعنی ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ گویا سماجی رویہ ہی سماجی انصاف، شفاف گورننس،نتیجہ خیز نظام احتساب عوامی شرکت کے ساتھ شیئرڈ پالیسی و فیصلہ سازی بلکہ انہیں اختیار کرنے اور عملداری میں بھی عوام کے حصے کو حتمی بناتا یاان سے محروم کردیتا ہے۔ یہیں سے الگ مملکت کا اصلی اور دائمی مقتدر اعلیٰ، اللہ سبحان تعالیٰ ایک مملکت کی حکومت کو مطلوب درجے کا استحکام، عوام کی خوشحالی اور ان کے حال و مستقبل کو ہدایت و رہنمائی کے ذریعے ارتقاء کا دوام بخشتاہے۔ جیساکہ قرآن کریم و فرقان حمید اقوام و حکام کی رہنمائی یوں کرتا ہے کہ :بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت آپ نہ بدل ڈالے۔ اقوام کے عروج و زوال کی تاریخ اس امر کی مکمل تصدیق کرتی ہے کہ قادر مطلق ،مبتلا زوال و برائی اقوام کو بھی مواقع اور رہنمائی کی حکمت سے ضرور نوازتا ہے اس پر بھی انتہائی پسماندہ جامد سماجی رویوں کی حامل اقوام نامراد و خوار ہو کر مکمل مغلوب ہوگئیں اور راہ ہدایت و حق اختیار کرکے عظمت و فلاح پائی۔ مختلف مذاہب کے فلاسفر اور آج کے جدید ترین دور کے ماہرین ترقیات بھی جملہ علوم اور اپنی سوچ و اپروچ سے اپنے تئیں مختلف تشریحات سے متذکرہ کلام الٰہی کی تصدیق کرتے ہیں۔ یوں یہ اب یونیورسل فیکٹ ہے کہ اقوام کی مطلوب ترقی و فلاح مطلوب سماجی رویے کی تشکیل و اختیاریت سے مشروط ہے۔ خصوصاً آج کے جدید دور میں جبکہ فرد اور شہری کی قدر و منزلت ہی ریاست اور اسکے سیاسی و معاشی امور کے استحکام کی ضمانت ہے۔

متذکرہ ناقابل تردید و اختلاف حقائق کی روشنی و تناظر میں عالمی سطح پر اقوام خصوصاً ترقی پذیر ممالک کا اصل چیلنج ہوگیا ہے کہ :سماجی رویوں کی مکمل و مسلسل سائٹیفک اسٹڈی کا ادارہ جاتی اہتمام مکمل دیانت داری اور شفافیت سے اصلی منتخب نمائندوں کی پروپیپلز قانون سازی سے ریاستی نظام میں کیا جائے لیکن موجود سماجی رویوں کی اسٹڈی تنہا حکومتوں کے ہی بس کا روگ نہیں اس میں پبلک یونیورسٹیز کی تحقیقی صلاحیت میں اضافے کے علاوہ نجی یونیورسٹیوں کو تحقیق کا پابند کرنا اور اس حوالے سے ان کی کیپسٹی بلڈنگ، پھر موجود تھنک ٹینکس اور نئے قیام، پوٹنشل افراد اور سب سے بڑھ کر ہر دو حکومتی کنٹرولڈ اور آزاد مین اسٹریم و سوشل میڈیا کا کردار بھی کلیدی اور لازم ہوگا۔ میڈیا انڈسٹری کو برا تو لگے گا لیکن ان کی بھی (آزادی کو تحفظ دیتے) کیپسٹی بلڈنگ ناگزیر ہے۔ کیسے؟ اس پر کالمز، مضامین میں لیکچر نہیں علمی و پیشہ ورانہ مباحثے مطلوب ہیں ۔ راقم الحروف کی رائے میں موجود صورت حال میں میڈیا کا سب سے بڑا مجوزہ اور شدت سے مطلوب کردار سماجی رویوں میں مطلوب تبدیلی برپا کرنا ہونا چاہیے۔ پاکستان میں رواں صدی کے آغاز سے اطلاعات کی فراہمی اور تجزیہ نگاری اور ابلاغ عامہ کی جملہ اصناف تو انتہائی روایتی اور مکمل معمول کی ہی ہو کر رہ گئی ہیں، بلکہ پاکستان کی حد تک اتنے روایتی میڈیا ایجنڈے میں نجی میڈیا کے مطلوب لیکن غیر پیشہ ورانہ انداز فروغ نے چن چن کر ملکی سرکاری کنٹرولڈ میڈیا (ریڈیو اور ٹی وی) کا وہ ایجنڈا بھی نکال کر خارج کردیا جو تفریح عامہ اور سماجی رویوں میں تبدیلی کے حوالے سے خطے کے عوام اور دنیائے ابلاغ میں ’’بااثر یا متاثر کن‘‘ ہونے کے طور پر ایٹ لارج تسلیم کیا گیا۔ کوئی ایک عشرے سے تو اسے فقط حکومتوں کےپروپیگنڈہ کا ذریعہ بنا دیاگیا ۔جس سے ان کی اہمیت اور کردار کم تر ہوگیا۔ حالانکہ ماورا سیاست پاکستانی سرکاری کنٹرولڈ میڈیا کی تاریخ تفریح عامہ اور کئی حوالوں سے شاندار اور مثالی ہے ۔

قارئین کرام! واضح رہے انسانی زندگی کے مشکل ترین معاشرتی اور مخصوص ہدف کے انفرادی رویے میں مطلوب تبدیلی لانا ہوتا ہے، اس کی بہت واضح وجہ ہے کہ عقل انسانی کی طرح ابلاغ کا اعلیٰ شرف انسانی بھی نہایت پیچیدہ ہے جو خیر و شر کو بڑھانے اور کم تر کرنے کے رجحان میں مبتلا رہے۔ اسی حوالے سے کمیونیکیشن سائنس کا ’’موثر ابلاغ‘‘ کے برابر ہی اہم ترین موضوع COMPLEXITY OF COMMUNICATION (ابلاغی عمل کی پیچیدگی) ہے، لیکن اسکی جدید علم کے بیش بہا دریافت اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی رویوں میں مطلوب تبدیلی قدرتاً ہونے یا انسانی کاوشوں سے برپا کرنے میں حائل رکاوٹوں کو چیلنج کردیا ہے۔ اس عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ آمرانہ حکومتیں انکے ادارہ جاتی معاون یا سرپرست مافیاز چلےآ رہے ہیں۔ خود معاشرے کی سماجی پسماندگی اور مہلک رسم و رواج و روایات اور ان کو حاصل ابلاغی معاونت بھی ایک بڑی سخت جان رکاوٹ بنتی چلی آئی ہے۔ آج یہ عوام مخالف ابلاغی دھارا صرف چیلنج نہیں ہوگیا، اس کی شکست و ریخت وتحلیل کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ابلاغیات کے جدید علم و ٹیکنالوجی نے عوام کی اپنی ابلاغی صلاحیت میں اتنا اضافہ کردیا ہے کہ اب حکومتوں اور سیاسی و دیگر مافیاز کی انفرادی یا اجتماعی مکاری اور خود غرضی کے مقابل خود جدید ابلاغی صلاحیت سے لیس عوام اچھے برے کی تمیز کرنے کے اہل ہوگئے۔ اس کا بڑا ثبوت ترقی پذیر دنیا میں ابلاغی اہلیت و اہمیت و آزادی کے حوالے سے لیڈنگ ریجن جنوبی ایشیائی ممالک کی بڑھتی اور سیلف بلڈ کیپسٹی بلڈنگ سے بلند درجے پر مل رہا ہے۔ عوام اور ان کے حقیقی نمائندوں اور رہنمائوں کے مقابل، حکومتی کنٹرولڈ کے ملک گیر میڈیا، روایتی اور بااختیار سیاستدانوں کے ٹولے اور ان کے سرپرست و معاون اداروں اور مافیاز کے مقابل عوامی اپنے یا ان کے دل کو موہنے والے بیانیے بھارت ، بنگلہ دیش اور سری لنکا و نیپال، افغانستان و مالدیپ میں تمام روایتی ذرائع ابلاغ اور بنتے قومی ابلاغی دھارے کو بے اثر کرنے پر قادر ہوئے، اور اب پاکستان میں اس کے قرائن مکمل آشکار ہیں۔ 8فروری سے 8ستمبر تک پاکستان میں جو محدود لیکن مسلسل اور پابندیوں سے گھرا جکڑا ابلاغ عوامی ذرائع سے ہوا اور جو اس کے مخالف کتنی ہی جانب سے ہو رہا ہے، اس میں عوام ہی بڑے درجے پر اپنے تبدیل شدہ رویے اور بہتر ابلاغی صلاحیتوں سے یقیناً فاتح ٹھہرے۔ اس برپا تبدیلی کو عوامی مفادات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ یہ مخصوص سیاسی لیڈروں اور پلیٹ فارمز کی بجائے، عوام کے تبدیل ہوتے سماجی رویے سے برآمد ہو رہی ہے جس کا ذریعہ ان کے موجودمشترکہ مفادات اور اپنی نئی نسل کی فکر ہے۔ پڑھ سکو تو پکڑ لو اور مطلوب تشکیل پذیر قومی ابلاغی دھارے اور عوامی بیانیوں میں حصہ ڈالو اور تبدیل کردار کی جگہ بنائو۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین