تحریر:ہارون نعیم مرزا…مانچسٹر پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے نہ صرف سیکورٹی فورسز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے بلکہ پاکستان کے تمام صوبوں میں عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں صوبائیت کو ہوا مل رہی ہے، ایک صوبے کے لوگ دوسرے صوبے کے لوگوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہے ہیں، باالخصوص پنجاب کے لوگوں کو پہلے کے پی کے اور سندھ کے عوام اپنا دشمن تصور کرتے تھے اور اب بلوچستان کے لوگ پنجاب کے مسافروں کو بسوں سے اتار کر ان کی پہچان کے بعد گولیوں سے انہیں چھلنی کر رہے ہیں، بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں اب تک سیکورٹی اہلکاروں سمیت درجنوں افراد شہید ہوچکے ہیں، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران 21دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکاہے ،بیشتر علاقوں میں سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان لڑائی جاری ہے، دوسری طرف کچے کے ڈاکوئوں نے لاقانونیت پھیلا رکھی ہے۔ بلوچستان میں دہشت گرد ٹی ٹی پی اور قوم پرستی کی چادر لپیٹ کر ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلوچوں کو یہ باور کرایا جارہاہے کہ ان کے حقوق غصب کئے جا رہے ہیں، ذہنی طور پر وہ پنجاب سے نفرت میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں ایک آنکھ پنجابی قوم نہیں بھاتی۔بی ایل اے، بی ایل ایف اور مجید بریگیڈ بلوچ قومی پرستی کا لبادہ پہن کر سیکورٹی فورسز اور بلوچستان میں رہائش پذیر دوسرے صوبوں کے باشندوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں، افغانستان ایسے گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے ،دیگر پاکستان دشمن قوتیں بھی صوبائیت کو ہوا دینے کیلئے اپنے وسائل استعمال کررہی ہیں، بلوچستان معدنیات سے بھرپور اوراہم ترین تجارتی گزر گاہ ہے، گیس، تیل، تابنے،سونے کے ذخائر بھی ہیں ،سی پیک کی کامیابی کا انحصار گوادر بندرگاہ اور بلوچستان میں قیام امن پر ہے۔ دہشت گردوں اور دہشت گردی کو زندہ رکھنے کے لیے تین چیزیں اہم ہیں یعنی پیسہ، ہتھیار اور تربیت، پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروہوں کو یہ تینوں چیزیں میسر ہیں ان کے بغیر پاکستان میں دہشت گردی ممکن نہیں ہے، فوج ایک طرف دہشت گردوں کیساتھ نبرد آزما ہے تو دوسری طرف بلوچوں کے غم وغصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے حکومت کیساتھ مل کر بلوچستان کے عوام کی محرومیاں ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔بلوچستان کے نوجوانوں کی بڑی تعداد پاک فوج میں شمولیت اختیار کررہی ہے ۔ہزاروں نوجوانوں کو نہ صرف باعزت روزگار میسر آیا ہے بلکہ بلوچستان کے عوام میں افواجِ پاکستان سے اپنائیت کے جذبات کو بھی بڑھاؤ ملا ہے۔ پاک فوج نے بلوچستان کے دور دراز اضلاع میں واقع تعلیمی اداروں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ فنی تعلیمی اداروں کے قیام پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کی ہے جس سے ہزاروں بلوچ طلبا و طالبات کو جدید اور معیاری تعلیمی سہولتوں سے استفادے کا موقع میسر آیا ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں ایک سیاسی عمل کا آغاز کیا جائے جو ایک کل جماعتی کانفرنس سے شروع ہو جس میں تمام سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا احاطہ کیا جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ دوسری طرف سندھ کو کچے کے ڈاکوئوں سے نجات دلانے کیلئے گرینڈ مشترکہ آپریشن اور موثر حکمت عملی خطے میں امن کی ضمانت بن سکتی ہے۔ پاکستان میں تعلیم یافتہ طبقہ ، سرمایہ کار بد امنی ، دہشت گردی اور اپنے تاریک مستقبل کو دیکھتے ہوئے دیگر ممالک میں منتقل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ قیام پاکستان سے آج تک قربانیاں دینے والے سندھی ، بلوچی ، پٹھان اور پنجابیوں کے درمیان صوبائیت کے خاتمے کیلئے حکومتی سطح پر موثر اقدامات کی ضر ورت ہے ۔حقیقی امن و امان قائم کر کے نہ صرف پاکستانی معیشت کو پائوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونے کاخواب بھی پورا ہو سکتا ہے اس سے قبل کہ صوبائیت کا اژدھا پورے پاکستان کو نگل جائے ہمیں پاکستانی بننا ہوگا۔