عمرا ن احمد سلفی
سرورِ کائنات، فخر موجودات، امام الانبیاء،سرکارِ دوجہاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت و بعثت سے قبل جب انسانیت مقام آدمیت سے گِر کر ظلمتوں کی پستیوں میں گھری ہوئی تھی ،ایک مقدس رات، مقدس سر زمین مکۂ معظمہ میں تقدس و عظمت کے مالک حقیقی کے مقرب و مقدس فرشتے جبرائیل امین ؑنے افضل و اکمل ہستی حضوراکرمﷺ پر پہلی وحی پیش کی۔ جس نے سارے عالم کو علم کی فضیلت سے آگاہ کیا ۔
پہلی وحی کا آغاز عقیدے یا اعلان نبوت کے کسی خاص پیغام سے نہیں، بلکہ لفظ ـ’’اقرأ‘‘ سے ہوا ،یعنی اگر پڑھنے اور علم حاصل کرنے سے انسان کا تعلق قائم ہوجائے تو خالق و مالک کی معرفت بھی حاصل ہوسکے گی اور نبوت ،وحی سے بھی تعلق جُڑ جائےگا۔
یہی وجہ ہے کہ پہلی وحی کی پہلی آیتِ مبارکہ میں ارشاد ہواـ ’’پڑھیے اپنے ربّ کے نام سے‘‘ جو ہر چیز کا خالق ہے ‘‘معلوم ہو اکہ ہر علم پسندیدہ اور محمود نہیں ہے، کیونکہ بہت سے علوم تو ایسے بھی ہیں جو بجائے خود انسانیت کے لئے نقصان اور ضرر کا باعث ہیں ،اس لئے علم وہی پسندیدہ، نافع اور باعثِ خیر و برکت ہوسکتا ہے جس کا تعلق خالق سے جڑا ہو اہو۔
ﷲ تعالیٰ نے اس اُمتِ آخرکے لئے جس نبی رحمت ﷺ کا انتخاب فرمایا ،اُ سے اُمّی رکھا ،کیونکہ جسے مُعلّم انسانیت بننا تھا ،وہ کسی انسان کا شاگرد کیسے بنایا جاسکتا تھا۔ اس لئے سورۂ رحمٰن میں ارشا د فرمایا ’’رحمٰن وہ ہے جس نے قرآن سکھایا‘‘ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ’’ اور آپﷺ کو وہ کچھ سکھایا جو آپ نہ جانتے تھے‘‘خود نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت کے مقصد کو اُجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ــ’’ مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔
نبی کریم ﷺ نے مکّہ مکرمہ میں دارِ ارقم کو اسلام کی پہلی اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی سے متصل چبوترے صفّہ کو دوسری باقاعدہ درس گاہ بنایا، ویسے تو آپ ﷺ کے کاشانۂ مبارک بھی ایک طرح سے تعلیمی ادارے ہی تھے کہ سید ہ عائشہ صدیقہ ؓ سے اُمت نے آدھا دین سیکھا ہے ،اُ ن کی تعلیم و تربیت خود نبی کریم ﷺ ہی نے فرمائی تھی اور آپ ﷺ ہی کی تعلیم وتربیت یافتہ آپ ﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہراء ؓ نے اپنے بچوں خاص طور پر حسنین کریمین ؓ کی ایسی تعلیم و تربیت فرمائی کہ انہوں نے حق کی راہ میں اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ معلّم انسانیتﷺ کی حیثیت سےنبی کریم ﷺ کی سب سے اعلیٰ وارفع صفت قول وفعل میں ہم آہنگی تھی۔ آپ ﷺ جو تعلیم دوسروں کوفرماتے ، پہلے خود اُس پر عمل کرتے نظر آتے ،اپنے لئے عزیمت کا راستہ اختیار فرماتے اور دوسروں کے لئے رخصت اور سہولت کا راستہ بتاتے۔
نبی کریم ﷺ کے فلسفۂ تعلیم میں تدریج کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، یعنی یک دم بھاری بھر کم نصاب کے بجائے تھوڑا تھوڑا سکھانا جس سے مقصد حاصل ہو، یعنی وہ علم انسان کے اخلا ق و کردار کا حصہ بنتا چلا جائے۔ اسی طرح تعلیم کی راہ آج مہذب دنیا نے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے سیکھی ہے، جب آپ ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو انہیں خاص ہدایت فرمائی کہ اپنے احکام و معمولات کو لوگوں کے لئے سہولت کا باعث بنانا ،دشواری و مشکل نہ بنانا اور انہیں خوشخبریاں دینا۔ اُنہیں نفرت نہ دلانا۔
اسی طرح ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے اپنے پیش امام کے حوالے سے آپ ﷺ سے شکایت کی کہ یہ بہت لمبی نمازیں پڑھاتے ہیں تو آ پ ﷺ نے خفگی ا ظہار فر مایا اور ہدایت فر مائی کہ نماز کی امامت کراتے ہو ئے خیال رکھو ، بزرگ ،بیمار اور اپنی ضرورت سے جانے والے لو گ بھی نماز میں شامل ہوتے ہیں۔
نبی کریم ﷺکے نظام تعلیم میں دینی یا دنیاوی تعلیم کی تفریق نہ تھی، بلکہ ہر وہ علم جو نیک نیتی کے ساتھ مخلوق کے فائدے کے لئے ہو ،وہ دینی علم ہی تصورکیا گیا ۔ غزوۂ بدر میں وہ جنگی قیدی جو اپنی رہائی کے لئے فدیہ نہ دے سکتے تھے، اُن کے لئے کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں ،یہ اُ ن کی طرف سے فدیہ ہوگا۔
آگر آج ہم بھی معلّم انسانیت ﷺکے نظریہ تعلیم کے مطابق اپنے تعلیمی نظام کی تنظیم نوکریں ،تو مدرسہ اور اسکول ،جامعہ اور یونیورسٹی کافرق ختم ہوجائے گا، مسٹر اور ملا کی تفریق مٹ جائے گئی ،دینی و دنیاوی علوم و فنون کے حسین امتزاج کے ساتھ قوم کو صالح اور ’’حقیقی ‘‘ قیادت میسر آئے گی۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معلّم انسانیت ﷺ کے نظام تعلیم سے بہرہ مند فرمائے ۔(آمین)