تحریر: حبیب الدین جنیدی (29 ویں برسی پر خصوصی مضمون ) ستمبر کا مہینہ تاریخی طور پر اُن مہینوں میں شمار ہوتا ہے کہ جب اس مملکت پاکستان کو غم بھی ملے اور خوشیاں بھی۔ 11؍ستمبر کو قائد اعظم محمد علی جناح ہم سے رخصت ہوئے ، بھارت نے 6؍ستمبر 1965 ء کو ہم پر جنگ مسلط کی جبکہ امسال محسن انسانیت پیغمبر اسلام کی آمد مبارک بھی17 ستمبر کو پورے عالم اسلام میں منائی جارہی ہے ۔ پی پی پی کے نو جوان چیئر مین بلاول بھٹو 21ستمبر کو پیدا ہوئے جبکہ یہ 17؍ستمبر 1995ہی کی منحوس تاریخ تھی کہ جب پاکستان کے ایک عظیم مزدور رہنما عثمان غنی کو دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا۔ آج عثمان غنی کی شہادت کی 29ویں برسی ہے۔ سندھ دھرتی اور مزدور تحریک کا یہ لافانی کردار کراچی کے قدیم علاقہ چنیسر گوٹھ میں پیدا ہوا اور مرتے دم تک اُس نے اپنے آبائی علاقہ میں رہائش کو نہیں چھوڑا۔ نوجوان عثمان غنی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز مسلم کمرشل بینک کی ملازمت سے کیا۔سیاسی طور پر وہ پیپلزپارٹی سے منسلک تھے جبکہ ایم سی بی سے انہوں نے ٹریڈ یونین تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا اور جلد ہی وہ ملازمین کے حقوق کے چیمپئن کے طور پر ابھرے اور انہیں سی بی اے یونین کے صدر کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ وہ اپنے ادارے کی ٹریڈ یونین فیڈریشن کے مرکزی رہنما بھی منتخب ہوئے ۔ اُنہیں پاکستان منکس امپلائز فیڈریشن جس کا شمار 1970تا 1990کی دیہائیوں میں پاکستان کی بڑی ملک گیر اور فعال مزدور تنظیموں میں ہوتا تھا کا مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل منتخب کر لیا گیا اور یوں انتہائی تیز رفتاری مگر استقامت کے ساتھ وہ پاکستان کی مزدور تحریک کے کارواں میں شامل اور آگے بڑھتے رہے۔ اس ضمن میں انہیں متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ اُن کی پہلی گرفتاری اُس وقت عمل میں آئی کہ جب وہ بینک کے ہیڈ آفس کے مرکزی ہال میں ایک احتجاجی جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔ یہ گرفتاری عثمان غنی کی قربانیوں کا آغاز تھی، اُس کے بعد یہ سلسلہ اُن کی زندگی کے آخری چند سالوں کے دوران بھی جاری رہا ۔شہید عثمان غنی کی آخری گرفتاری اوائل 1991 میں اُس وقت عمل میں لائی گئی کہ جب پاکستان کی تمام متحرک سیکڑوں مزدور تنظیموں نے A.P.S.E.W.A.C کے نام سے پرائیوٹائیزیشن کے خلاف ایک ملکی گیر اتحاد قائم کیا اور پاکستان کے تقریباً تمام ہی صنعتی اور تجارتی اداروں کے ملازمین نے ایک دن کی علامتی مگر مکمل ہڑتال کی اس ہڑتال کی پاداش میں شہید عثمان غنی کو اُن کے دفتر واقع ایم ۔ سی۔ بی ہیڈ آفس سے گرفتار کیاگیا جبکہ راقم الحروف کو شہید کی گرفتاری کے دو یا تین دنوں کے بعد میکلوڈ روڈ کی شاہراہ سے اُس جلسے سے گرفتار کیا گیا جو کہ عثمان غنی کی گرفتاری کے خلاف تمام بینکس کے ملازمین نے مشترکہ طور پر منعقد کیا تھا، ہمیں کراچی سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا اور ہماری رہائی اُس وقت عمل میں آئی جب نوازشریف حکومت نے ایم سی بی بینک کو پرائیویٹ سیکٹر کو فروخت کر دیا۔ عثمان غنی شہید کی زندگی کے کم از کم تین پہلو نہایت اہم ہیں، وہ ملک کے ایک اہم اور بڑے مزدور رہنما تھے انہوں نے پوری زندگی مزدوروں کے حقوق کی جد و جہد میں گزاری ، وہ پی پی پی کے انتہائی جانثار رہنماؤں میں شمار کیے جاتےتھے جن کو شہید بینظیر بھٹو کی قربت اور شفقت کا اعزاز بھی حاصل تھا، یہ بتانا ضروری ہے کہ پیپلز لیبر بیورو کی تنظیم قائم کرنے کے لیے شہید بینظیر بھٹو کو قائل کرنے میں بنیادی کردار بھی شہید عثمان غنی ہی کا تھا ، وہ ایک سماجی کارکن بھی تھے اور اپنے رہائشی علاقہ میں ہمیشہ غریب عوام کے درمیان رہتے تھے یہی وجہ ہے کہ آج بھی چنیسر گوٹھ کی عوام انہیں نمناک آنکھوں ساتھ یاد کرتےہیں۔ اس عظیم مزدور رہنما کو سفاک قاتلوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کرکے 17ستمبر1995کے منحوس دن اُس وقت کہ جب وہ اپنی رہائشگاہ سے دفتر جانے کےلیے نکلے ہی تھے کہ قریبی پل پر انہیں گھات لگا کر شہید کر دیا گیا (انا للہ وإنا إليہ راجعون) تاریخ کا سفر بھی عجیب و غریب رُخ اختیار کرتا ہے۔ عثمان غنی کے قاتلوں اور اُن کے پشت پناہوں کو یہ گمان رہا ہو گا کہ اُنہوں نے ایک شمع کو گل کر دیا ہے جبکہ وہ یہ بھول گئے کہ ہمیشہ ایک شمع کی لو سے دوسری کوگل شمع روشن ہوتی ہے۔ عثمان تو اپنی جد و جہد بھری زندگی گزار کر سفر آخرت پر روانہ ہو گئے لیکن اُن کے ہونہار فرزند سعید غنی نے اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اُسی کانٹوں بھرے سیاست کے راستے کا انتخاب کیا جو اُن کو اپنے شہید والد سے ورثہ میں ملا تھا۔ سعید غنی نے نوجوانی میں میدانِ سیاست میں قدم رکھا، بلدیاتی سیاست سے آغاز کیا، دیکھتے ہی دیکھتے سینیٹ آف پاکستان میں سینیٹر منتخب ہوئے ، از خود سینیٹر شپ چھوڑ دی، کراچی میں اپنے حلقہ رہائش سے ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے ،وزیر محنت بنے ، وزیر تعلیم کی ذمہ داریاں نبھائیں اور اس وقت انتہائی اہم صوبائی وزارت بلدیات سنبھالے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب پی پی پی کی تنظیم میں بھی وہ گراس روٹ لیول سے شروع ہوئے اور اب وہ کراچی ڈویژن کی صدارت کے عہدے پر فائض ہیں انہیں پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کا مکمل اعتماد بھی حاصل ہے ۔ سعید ایک Self-Made سیاستدان ہیں ،صوبہ سندھ اور اُن کے آبائی شہر کراچی کو اُن سے بہت ساری اُمید میں اور توقعات وابستہ ہیں جن پر وہ انشاء اللہ و تعالیٰ پورا بھی اُتریں گے۔