شہنشاہ اکبر کے ایک انمول رتن، شہر بُرہان پورکے فنِ تعمیرکے با ذوق صوبہ دار، اور ہندی کے مقبولِ عام صوفی شاعر عبد الرحیم خانِ خاناں، بہت سخی بھی تھے۔ ان کے والد، بیرم خاں مغل بادشاہ ہمایوں کے استاد اور اکبر کے بچپن کے دوست تھے۔ انہیں اُس وقت قتل کردیا گیا جب عبد الرحیم چار برس کے تھے۔
یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ اکبر نے بیرم خاں کی خدمات کے پیش نظر، رحیم کی پرورش اور تعلیم و تربیت اپنے ذمہ لے لی۔ رحیم نے جنگی تربیت کسی ملیٹری اسکول میں نہیں لی تھی لیکن اپنی ذاتی دلچسپی کے سبب وہ فنِ سپہ گری سے کم عمری میں ہی کافی ماہر ہوگئے تھے۔
جب اکبر نے گجرات پر چڑھائی کی تو ’’نشان ِ لشکر‘‘ یعنی فوجی پرچم اس بچے کے ہاتھ میں تھا۔اُس وقت وہ چودہ برس کا تھا۔ جب مغل بادشاہوں نے موجودہ مدھیہ پردیش کے تاریخی شہر بُرہان پور کو اہمیت دی توعبد الرحیم کو، برہان پور کا صوبہ دار مقر کردیا گیا۔
برہان پورکی سماجی اور تعمیراتی تاریخ پر عبد الرحیم خانِ خاناں کے اثرات آج بھی ہیں۔ نہر عبد الرحیم خانِ خاناں، جہانگیری حمام ،باغ عالم آرا زین آباد، آہو خانہ، شاہ نواز خان کا مقبرہ اور حضرت شاہ عیسیٰ کا آستانہ عالیہ انکی زیر نگرانی تعمیرات کا بہترین نمونہ ہیں۔
رحیم ایک ماہر سپہ سالار اور صوبہ دار کے علاوہ، عربی ، فارسی، ترکی، سنسکرت، برج اور اودھی زبان کے عالم تھے۔ وہ فرینچ اور انگریزی زبان بھی جانتے تھے۔ زبان ِ ہندی کے مقبولِ عام صوفی شاعرتھے۔ دوہے کہتے تھے ،جن میں اکثر و بیشتر اپنا تخلص رحِمن استعمال کرتے۔ ہندی میں ان کی شعری تخلیقات کا مکمکل مجموعہ ’’رحیم رتناولی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
اکبر ان کو پدرانہ شفقت سے فرزند ِ برادر اور بے تکلفی میں یار ِ وفادار کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ وہ ان کی شخصیت اور علم سے اس قدر متاثر تھے کہ انھوں نے رحیم کو اپنے بیٹے جہانگیر کا اتالیق مقرر کیا۔ اس کے علاوہ اکبر نے ان کو خانِ خاناں کے خطاب سے نوازتے ہوئے ’’پنچ ہزاری‘‘ منصب عطا کیا اور بعد میں ’ سپہ سالار اعظم اور وزیر بنایا۔
رحیم کا ۱۶۲۷ ء میں انتقال ہوا اور انکی خواہش کے مطابق انہیں انکی بیگم کے مقبرہ کے پاس دلی میں دفن کیا گیا۔
یہ تھا اکبر کے نورتنوں میں سے ایک رتن ، ہندی کے دوہا گو صوفی شاعر، فن تعمیرات کے با ذوق برہان پور کے صوبہ دار ، بہت سی زبانوں کے جانکار، سخاوت کے پیکر عبد الرحیم خانِ خاناں کا مختصر سا تعارف۔
ذیل میں عبد الرحیم خانِ خاناں کی زندگی کے پانچ ایسے قصے ملاحظہ کریں، جن کی وجہ سے وہ عوام میں سخی خانِ خاناں کہلائے۔
……پھل دار درخت……
ایک روز، خانِ خاناں اپنی مخصوص سواری پر بیٹھے کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک شریر بچے نے ان کی سواری پر ایک پتھر مارا۔ سپاہی دوڑ کر اسے پکڑ کرلے آئے لیکن رحیم نے اسے سزا دینے کے بجائے کچھ چاندی کے سکے دینے کا حکم دیا۔
اس پر سب حیران ہوئے اور بولے کہ جو سزا کا مستحق تھا، اسے آپ نے انعام سے نوازا، اس میں کیا مصلحت ہے؟ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ یہ سن کر رحیم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’لوگ پھل دار درخت پر ہی پتھر مارتے ہیں! ‘‘
……توا اور پارس……
ایک دن ، خانِ خاناں اپنی سواری سے اتر رہے تھے کہ ایک غریب بڑھیا آئی اور اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے توے کو خانِ خاناں کے جسم سے رگڑنے لگی۔ سب سپاہی ارے ارے کرکے دوڑے لیکن رحیم نے ان سب کو روک دیا اور حکم دیا کہ اس بڑھیا کو توے کے برابر سونا تول کردے دو۔
سبھی مصاحب اس فیصلے پر حیرت زدہ ہوئے اور بولے۔ یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
اس پر رحیم نے اپنے خاص انداز میں کہا۔
یہ بڑھیا پرکھ رہی تھی کہ بزرگوں کی یہ بات کہاں تک سچ ہے کہ بادشاہ اور اس کے امیر ’’پارس‘‘ ہوتے ہیں اور کیا ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں!
……ایک بوند آبرو……
ایک روز کا ذکر ہے کہ خانِ خاناں کی سواری جارہی تھی کہ راستے میں ایک پریشان حال شخص دکھا۔ اس نے ایک شیشی میں ایک بوند پانی ڈالتے ہوئے شیشی کو کچھ جھُُکایا۔ اس میں سے جب وہ پانی کی بوند گرنے کو ہوئی تو اس نے شیشی کو سیدھا کرلیا۔ یہ دیکھ کر سخی رحیم اس کو اپنے ساتھ محل میں لے آئے اور پھر کچھ دنوں کے بعد انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا۔
مصاحبوں کے پوچھنے پر خانِ خاناں نے بتایا کہ ایک بوند پانی شیشی میں بھر کے شیشی کو جھٹکا نے کا مطلب یہ تھا کہ صرف ایک بوند آبرو بچی ہے اور اب وہ بھی خطرے میں ہے!
……خادم سے مصاحب……
ایک دن خانِ خاناں اپنے مصاحبوں کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ ایک خادم اچانک رونے لگا، اُسی روز اُسے ملازمت دی گئی تھی۔ خانِ خاناں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ، میں ایک دولت مند باپ کا بیٹا ہوں۔ آج دستر خوان پر چُنی ہوئی نعمتیں دیکھ کر مجھے اپنی امیری کا زمانہ یاد آگیا۔
اس پر خانِ خاناں نے امتحان لینے کی غرض سے اس سے پوچھا کہ بھنے ہوئے مرغ میں سب سے اچھی چیز کیا ہوتی ہے؟
خادم نے جواب دیا۔ پوست یعنی کھلری۔
خانِ خاناں کو یقین ہوگیا کہ وہ کسی دولت مند کا بیٹا ہے۔
پس، اسکے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے اپنے پاس بٹھایا اور اپنے مصاحبوں میں شامل کرلیا۔
……بڑا آدمی……
ایک دن جہانگیر بادشاہ کسی منہ پھٹ بھاٹ کی کسی بات پر ناراض ہوگئے اور اسے ہاتھی کے پائوں تلے کُچلنے کا حکم دیا۔
اتفاق سے اس وقت وہاں خانِ خاناں بھی موجود تھے۔ بھاٹ پہلے تو ان کو تکتا رہا اور پھر برجستہ بولا۔
’حضور، نواب خانِ خاناں بڑا آدمی ہے۔ اسے ہاتھی کا پیر چاہیے۔ میں تو چیونٹی سے بھی کم تر ہوں۔ میرے لیے تو چوہے کا ایک پیر ہی کافی ہے! ‘
اس پر جہانگیر اور زیادہ خفا ہوگئے ۔ لیکن خانِ خاناں مسکرا دئیے اور اس کی جان بخشی کروائی۔ سخی رحیم نے اسے یہ کہتے ہوئے سونے کے سکے بھی دیے کہ: ’اس نے مجھے بڑا آدمی سمجھا، تو کہا۔ بڑا آدمی نہ سمجھتا تو وہ کیوں کہتا مجھے بڑا آدمی !‘