• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت ہے، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ہے، لارڈ قربان

لندن ( انٹرویو:عارف الحق عارف ) برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف لارڈز کے کشمیری نژاد رکن لارڈ قربان نے پاکستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان میں خدا خوفی پر مبنی مضبوط عدالتی نظام قائم کردیا جائے، جہاں کسی دباؤ یا مداخلت کے بغیر غریب اور امیر سب کو بلا امتیاز جلد اور سستا انصاف فراہم ہو تو ملک کے حالات بہتر بنائے جاسکتے ہیں۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف لارڈز میں اس نمائندے کو انٹریو دے رہے تھے۔اس سے قبل انہوں نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور اس سے متعلق قدیم عمارتوں کا دورہ کرایا اور ان کی تاریخی اہمیت سے آگاہ کیا۔ اس دورے میں پاکستان سے پہلی بار برطانیہ آنے والے ممتاز صحافی، کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس اور پی ایف یوجے اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر افضل بٹ ،یو کے اسلامک مشن کے سیکرٹری جنرل تنویر سعید بھی موجود تھے۔ لارڈ قربان سے ہونے والی اس پہلی ملاقات اور انٹرویو میں یہ جان کر بڑی مسرت ہوئی کہ لارڈ قربان کا تعلق آزاد کشمیر میں ہمارے ضلع میر پور کے شہر راجدھانی سے ہے۔ یہ علم ہونے پر کہ ہم بھی کشمیری ہیں اور کھوئی رٹہ سے تعلق ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔لارڈ قربان نے کہا کہ اگر کسی ملک کے سارے آئینی ادارے کسی وجہ سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہوجائیں اور صرف ایک آئینی ادارہ ملک کا عدالتی نظام کسی کے پریشر میں آئے بغیر ملک کے ہر باشندے کو انصاف دیتا رہے تو وہ ملک تباہ ہونے سے بچ سکتا ہے۔مشکل حالات میں جج حضرات یا تو تاریخ کو دوہراتے ہیں یا پھر تاریخ رقم کرتے ہیں۔ لارڈ قربان سے مسئلہ کشمیر پر بھی تفصیل سے گفتگو ہوئی اور کشمیر کاز کے واشنگٹن میں متحرک سفارت کار اور اقوام متحدہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل یوسف بچ کے جانشین غلام نبی فائی ویڈیو کال پر انٹرویو میں شریک تھے۔انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ ہم اس وقت لارڈ قربان سے ملاقات اور انٹرویو کررہے ہیں۔لارڈ قربان نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم جینو سائیڈ واچ ( Genocide Watch )نے اقوام متحدہ اور پوری دنیا کو کئی بار خبردار کیا ہے کہ افریقی ملک روانڈا کی طرح کشمیر میں تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام (genocide )ہونے والا ہے اور اس کے لئے دس اقدام میں سے آٹھ اٹھائے جا چکے ہیں اور اس سانحہ کے ظہور پذیر ہونے میں صرف دو قدم باقی ہیں لیکن اس کو عالمی پریس اور خاص طور پر برطانوی اور پاکستانی میڈیا میں کوئی پذیرائی نہیں ملی۔اگر خدا نخواستہ یہ سانحہ ہوگیا تو یہ حالیہ تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہوگا۔ انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مسئلہ کشمیر پر رویئے کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہاؤس آف کامنز میں ہاؤس آف لارڈز کے مقابلے میں صورت حال اور ہے۔ وہاں کشمیری ارکان پارلیمنٹ زیادہ ہیں ان کی اپنے حلقہ ہائے انتخابات ہیں۔انسانی حقوق کا خیال رکھنے والے اور ان کی پامالی اور خلاف ورزیوں پر آواز بلند کرنے والے ارکان موجود ہیں اس لئے وہ انڈین مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف درزیوں پر احتجاج بھی کرتے ہیں اور اس کو ہر فورم پر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہاؤس آف لارڈز میں ایسا نہیں ہے وہاں تو ایک دو کے علاوہ کوئی مسئلہ کشمیر کو کبھی نہیں اٹھاتا۔یہ ضرور ہے کہ اگر میں یا ایک آدھ کوئی اور کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالیوں یا اس کی حیثیت میں تبدیلی کی بھارتی کوششوں پر آواز بلند کرتا ہے تو پھر اس کی حمایت میں ضرور کچھ ارکان بولتے ہیں لیکن از خود کوئی نہ آواز بلند کرتا ہے اور نہ اس پر توجہ دیتا ہے۔ یہ بڑی بد قسمتی ہے۔ایک زمانے تک لارڈ نذیر مسئلہ کشمیر پر بڑی توانا آواز تھے لیکن ان کو مخصوص صورت حال میں استعفیٰ دینا پڑا اور اب یہ ذمہ داری میرے کندھوں پر ہے اور میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و زیادتی پر آواز بلند کرتا رہوں اور اللہ کا فضل ہے کہ اس نے یہ توفیق دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاؤس آف لارڈز میں مختلف ممالک کے تعلقات کے علاوہ مختلف امور پر اپنا موقف پیش کرنا ہوتا ہے، لیکن مجھے فخر سے کہ جس ایک معاملے پر میں تسلسل سے بولتا ہوں وہ مسئلہ کشمیر ہے میرا یہ عزم ہے کہ جب تک میں اس کا ممبر ہوں اور دم میں دم ہے اس وقت وہاں ہونے والی ہر زیادتی اور انسانی حقوق کی ہر خلاف ورزی پر پوری طاقت سے آواز بلند کرتا رہوں گا۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ انڈیا بہت بڑی اقتصادی قوت اور تجارتی منڈی ہے جس کو ناراض کرنے کے برطانیہ تو کیا خود اسلامی ممالک بھی تیار نہیں ہوسکتے اس لئے مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔جب تک ہم انڈیا کی پالیسی کو اپنے حق میں بدلوا نہیں لیتے اس وقت مسئلہ کشمیر پر پیش رفت نہیں ہوسکتی اور اب تو حالات مقبوضہ کشمیر میں370 اور 35 اے کی تبدیلی کے بعد گاڑی الٹی چل پڑی ہے۔ اس لحاظ سے حالات اور خراب ہو گئے ہیں۔اب مسئلہ کشمیر کے حالات بد سے بد تر ہوگئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان حالات کے باوجود برطانیہ ہی وہ ملک ہے جس میں گزشتہ60 برس سے کشمیریوں نے اس مسئلہ کو زندہ رکھا ہوا ہے اور وہ بھارتی کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں اور کشمیریوں کی نسل کشی پر آواز بلند کرتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی پامالی پر کڑی نظر رکھنے والی ساری تنظیمیں کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرتی ہیں اور باقاعدہ اپنی رپورٹس بھی دیتی رہتی ہیں لیکن برطانیہ میں ہمارا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ برطانوی میڈیا میں ہماری کوئی آواز نہیں۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہماری اس تجویز کو انہوں نے سراہا کہ برطانوی پریس اور میڈیا کو مسئلہ کشمیر اور وہاں ہونے والی زیادتیوں پر توجہ دلانے کےلئے کشمیریوں کو ان کے ایڈیٹروں کے ساتھ ملاقات کرنا چاہئے ۔انہوں نے پاکستانی اور کشمیری سیاسی رہنماؤں کو مشورہ دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے ارکان سے ملاقات کریں اور ان کی توجہ اس اہم معاملے کی جانب مبذول کرائیں اور ان پر اپنے اپنے حلقوں میں بھی ملاقاتیں کریں اور پریشر ڈالیں تو اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔جیسا کہ امریکہ کے مسلمان غزہ کے مسئلے پر اس ایک پریشر گروپ کے طور پر کررہے ہیں۔انہوں ایک اور سوال پر کہا کہ برطانوی پارلیمنٹ میں 80 سے90ارکان پر مشتمل ایک کشمیر کمیٹی بنی ہوئی ہے اور کام کررہی ہے جو خوش آئند بات ہے۔ گزشتہ روز بھی اس کمیٹی کا اجلاس تھا جس میں کافی ارکان شریک تھے۔اس کے چیئرمین عمران حسین ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ ہاؤس آف لارڈز میں پاکستانی 10 ارکان ہیں جن میں سے کشمیری میں ہی ہوں، ہاؤس آف کامنز میں 16 پاکستانی ہیں۔انٹرویو کے بعد لارڈ قربان اور ہم کسی سیکورٹی کے بغیر پارلیمنٹ سے باہر آئے اور ٹرانسپورٹ کے بہترین نظام ٹیوب کے ذریعہ ایک ہی ریل میں اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔تین اسٹیشن تک ہم ساتھ رہے اور اس کے بعد وہ اتر کر دوسری ٹرین میں اپنے شہر لوٹن روانہ ہوئے اور ہم اسی ٹرین میں اپنی جائے قیام آگئے۔لارڈ قربان روزانہ اسی پبلک ٹرانسپورٹ سے لیوٹن سے ہاؤس آف لارڈ آتے اور واپس جاتے ہیں جو لندن سے کوئی ایک گھنٹے کی دوری پر ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں ہم نے گورنرز، وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کا اپنے ملک کی طرح کروفر نہیں دیکھا۔وہ کسی سیکورٹی کے بغیر عام لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، عام مارکیٹوں میں شاپنگ کرتے اور کیو میں لگتے ہیں۔ 

یورپ سے سے مزید