خواجہ شمس الدین عظیمی
ادیب کا تعارف کہانی کا انتخاب۔ علی حسن ساجد
پیارے بچو! خواجہ شمس الدین عظیمی پاکستان کے ممتاز روحانی اسکالر ہیں، آپ 17 اکتوبر 1927ء کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔
پاکستان کے مختلف اخبارات اور رسالوں میں لاتعداد مضامین لکھے، سیرت طیبہ اور دیگر موضوعات پر آپ کی 60 سے زیادہ کتابیں مختلف زبانوں میں شائع ہوچکی ہیں، آپ نے زکریا یونیورسٹی ملتان میں بہ حیثیت پروفیسر خدمات انجام دیں۔
آپ پاکستان اور بیرون ملک کی جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں پروفیسرز کو لیکچرز بھی دیئے، ورکشاپس، سیمینارز میں شرکت بھی کی۔ روحانی علوم کے فروغ اور عوام الناس میں مطالعہ کی عادت کے فروغ کے لئے آپ نے پاکستان کے مختلف شہروں میں عظیمی روحانیہ لائبریریز بھی قائم کیں۔ بچوں کی کئی کتابیں اور مضامین شائع ہوئیں۔ آج آپ ان کی لکھی ہوئی کہانی ”حاتم طائی“ ملاحظہ کریں۔
یمن میں ایک قبیلہ آباد تھا، جس کا سردار حاتم طائی تھا۔ اس کی سخاوت سے دنیا کا ہرشخص واقف تھا۔
حاتم طائی کی سخاوت کا ایک قصہ آپ کو بتاتے ہیں۔
روم کے بادشاہ کے دربار میں ایک دن حاتم طائی کی سخاوت کا تذکرہ ہوا۔ ایک شخص نے بتایا کہ’’ حاتم طائی کے پاس عمدہ نسل کا ایک گھوڑا ہے۔ وہ خوبصورت اتنا ہے کہ جو بھی دیکھتا ہے اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتا۔‘‘ حاتم طائی کی تعریف سن کر بادشاہ نے کہا ”جب تک کسی آدمی کو آزمایا نہ جائے اس وقت تک اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا عقل کے خلاف ہے۔“
بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ ’’ تم جاؤ اور حاتم طائی کی سخاوت کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کرو اور اس سے کوئی ایسی چیز طلب کرو جو اس کے لیے سب سے زیادہ عزیز اور سب سے زیادہ قیمتی ہو۔‘‘ آپ اس سے اس کا تیز رفتار گھوڑا طلب کریں‘‘۔ بادشاہ کو درباری کی یہ بات پسند آئی۔ اس نے وزیر سے کہا کہ’’ تم حاتم طائی کے پاس جاؤ اور اس سے اس کا گھوڑا مانگو اگر وہ گھوڑے کا ایثار کر دیتا ہے تو حاتم طائی یقیناََ سخی ہے۔‘‘
وزیر اور بادشاہ کے درباری سفر طے کرتے ہوئے رات کے وقت حاتم طائی کے گھر پہنچے جس وقت یہ لوگ وہاں پہنچے موسلادھار بارش ہورہی تھی۔ گھپ اندھیرے میں بادلوں کی گرج چمک ماحول کو خوفناک بنارہی تھی۔
ایسے خراب موسم میں گھر سے نکلنا اور مہمانوں کے کھانے کا انتظام کرنا بڑا مشکل کام تھا لیکن حاتم طائی نے میزبانی کا حق ادا کیا اور مہمانوں کی تواضع اور آرام و آسائش کا پورا پورا انتظام کیا۔ دستر خوان پر لذیز بھنا ہوا گوشت کھا کر مہمان خوش ہوگئے اور سفر کی تھکان اُتارنے کے لیے آرام سے گہری نیند سو گئے۔
صبح کے وقت بارش تھم چکی تھی اور فضا صاف ہوگئی تھی۔ درخت دھلے ہوئے اور ہوا ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ناشتے کے دوران وزیر نے مہمان نوازی کا شکر یہ ادا کیا اور کہا کہ،’’ ہمارے بادشاہ کے سامنے آپ کے گھوڑے کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ بادشاہ چاہتا ہے کہ آپ اپنا گھوڑا ان کی خدمت میں نذر کر دیں۔‘‘
وزیر کی بات سن کر حاتم طائی افسوس کے ساتھ ہاتھ ملنے لگے اور افسردہ لہجہ میں کہا کہ،’’ اگر آپ گھوڑا لینے آئے تھے تو یہ بات آتے ہی مجھے بتا دینی چاہئے تھی لیکن اب میں مجبور ہوں اس لیے کہ میرا پیارا گھوڑا اس دنیا میں نہیں ہے۔
پوری رات طوفانی بارش برستی رہی میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ اتنے سارے لوگوں کے کھانے کا انتظام کر سکوں، یہ بھی ممکن نہ تھا کہ گاؤں سے ضیافت کے لیے کوئی جانور منگوا سکتا، لہٰذا میں نے گھوڑے کو ہی ذبح کردیا اور اس کا بھنا ہوا گوشت دستر خوان کی زینت بن گیا۔ وزیر حاتم طائی کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا۔ بادشاہ کو جب یہ سارا واقعہ سنایا گیا تو بادشاہ نے بھی حاتم طائی کی سخاوت کی تعریف کی۔