تحریر:پرویز فتح…لیڈز برصغیر کے نامور مارکسی مفکر، ہندوستانی بائیں بازو کے نمایاں رہنما اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سیکرٹری کامریڈ سیتارام یچوری 72برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔اُن کے جسد خاکی کو پہلے ان کے پارٹی کے دفتر رکھا گیا اور بعد ازاں 14ستمبر کی شام کامریڈ کی وصیت کے مطابق میڈیکل تدریس و تحقیق کیلئے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو عطیہ کر دیا گیا۔ کامریڈ یچوری کا شمار دنیا کے بلند پایہ انقلابی، سوشلسٹ و کمیونسٹ رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد جنم لینے والے سیتارام یچوری، آزادی کی تحریکوں کے تسلسل اور سامراجی غلامی سے نجات اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی ایک توانا آواز تھے۔ اُن کی شخصیت علم و شعور، جدوجہد، ثابت قومی اور انقلابی جذبے کی اعلیٰ امتزاج تھی۔ کامریڈ سیتارام یچوری 1992سے اپنی پارٹی کے انٹرنیشنل افیئر سیکرٹری تھے اور ہر سال دو سال بعد اپنی پارٹی کے برطانیہ چیپٹر کی کانگریس میں شرکت کیلئے تشریف لاتے تھے۔ راقم کا کامریڈ یچوری سے دہایوں پر محیط گہرا رشتہ تھا اور وہ جب بھی برطانیہ تشریف لاتے تو ان سے تفصیلی ملاقاتیں ہوتی تھیں ہماری آخری ملاقات جولائی 2023ء میں لندن میں ہوئی جس میں بہت تفصیل کے ساتھ خطے میں بڑھتی بنیاد پرستی، شدت پسندی، ترقی پسند تحریکوں، باالخصوص مارکسی سیاست اور اس کے مستقبل کا جائزہ لیا گیا۔ کامریڈ یچوری نے 1974میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس۔ایف۔آئی) میں شمولیت اختیار کی اور نظریاتی و عملی بنیادوں پر اس جانفشانی سے کام کیا کہ ایک سال کی قلیل مدت میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے ممبر بن گئے۔ بعد ازاں 1975میں ایمرجنسی لگی تو وہ اس کے خلاف مذاحمت کرتے ہوئے روپوش ہو گئے، لیکن کچھ عرصہ بعد ہی اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ایمرجنسی کے بعد وہ دو برس کے عرصہ میں تین بار جواہرلال یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ اس زمانے میں نامور کمیونسٹ رہنما پرکاش کرات کے ساتھ سیتارام جی کی جوڑی اس قدر مشہور ہوئی تھی کہ اس نے جواہرلال نہرو یونیورسٹی دھلی میں بائیں بازو کا ناقابلِ تسخیر گڑھ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کامریڈ یچوری 1978میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے ملکی سطح کے جوائنٹ سیکرٹری اور پھر 1984سے 1986تک مرکزی صدر منتخب ہوے، اور انہوں نے طلبہ تنظیم کو آل انڈیا انقلابی فورس کے طور پر ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔اُنہیں 19 اپریل 2015 کو پارٹی کی 21 ویں کانگریس میں پارٹی کے پانچویں جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ کامریڈ سیتارام ایک عمدہ مصنف بھی تھے اور گذشتہ 20 برس سےاپنی پارٹی کے ہفت روزہ ’’پیپلز ڈیموکریسی‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ انگریزی زبان میں شائع ہونے والا یہ اخبار دُنیا بھر کے ترقی پسندوں میں مقبول ہے اور راقم 80 کی دہائی کے اوائل سے اس کا قاری ہے۔ کامریڈ یچوری ایک عرصہ سے ہندوستان ٹائمز کیلئے 15 روزہ کالم ʼʼلیفٹ ہینڈ ڈرائیوʼʼ لکھتے رہے ۔ نظریاتی میدان میں ان کا دوسرا اہم کردار ہندوتوا پر ان کی تنقید تھی، جو ان کی کتابوں میں شائع ہوئی تھی۔ سوشلسٹ نظریات کی ترویج و ترقی اور انقلابی سیاست کو بڑھاوا دینے کے لیے انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں، جن میں ʼبدلتی ہوئی دنیا میں سوشلزم؛ بائیں ہاتھ کی ڈرائیو، ٹھوس حالات کا ٹھوس تجزیہ؛ مودی حکومت، فرقہ واریت کا نیا عروج؛ فرقہ واریت بمقابلہ سیکولرازم؛ یہ ہندو راشٹر کیا ہے؟ جعلی ہندو ازم بے نقاب، زعفران بریگیڈ کے افسانے اور حقیقت؛ آج ہندوستانی سیاست، ذات پات اور طبقے؛ تیل کا بحران یا بین القوامی بدعنوانی کا جوہڑ، اور غرینہ کی رجنیتی شامل ہیں۔ اس کے علاؤہ انہوں نے تحریک آزادی کی عوامی ڈائری؛ عظیم بغاوت، بائیں بازو کا نقطہ نظر؛ اور عالمی اقتصادی بحران، ایک مارکسی نقطہ نظر کی تدوین بھی کی ہے۔ کامریڈ سیتارامی جولائی 2005ء میں پہلی بار مغربی بنگال سے ھندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا ʼراجیہ سبھاʼ کے ممبر منتخب ہوئے۔ جلد ہی انہوں نے معاشرے کے گھمبیر مسائل کو پارلیمنٹ میں اُجاگر کرنے اور اہم ملکی امور پر سوالات اُٹھانے والے منفرد پالیمنٹیرین کے طور پر شہرت حاصل کر لی انہیں 2017 میں سال کے بہترین ھندوستانی پارلیمنٹیرین کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ جب ھندوستان اور امریکہ کے درمیان سول ملٹری ایٹمی معاہدے کی بات چیت چل رہی تھی تو ھندوستان بھر میں بائیں بازو کی جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی تھیں۔ سیتارام یچوری نے اس معاہدے کو قومی نوعیت کا معاملہ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں اس پر بحث کا آغاز کیا اور تمام تحفظات و شرائط کا ذکر کیا۔ انہوں نے کھل کر امریکی سامراج کو اس کے تسلط پسندانہ رویے کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اب عالمی بالادستی کی اپنی ہوس و جستجو میں توانائی کے عالمی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ دُنیا میں توانائی کی منتقلی ااور تجارت کے پورے عمل کو ہائی جیک کرتے ہوئے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ امریکی سامراج کی فوجی مداخلت فلسطینیوں کے قتل عام کو جواز فراہم کرنے اور انہیں وطن کے جائز حق سے محروم کر رہی ہے۔ کامریڈ سیتارام اور اُن کی پارٹی جموں و کشمیر میں دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بھی سخت مخالف ہیں اور اس عمل کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کامریڈ سیتارام کے دوستانہ مزاج کو دیکھتے ہوئے ان کے سیاسی منظر نامے اور زندگی کے تمام شعبوں میں دوستوں کا ایک وسیع حلقہ پایا جات ہے۔ ان کی سیاسی دیانت داری اور نظریاتی و سیاسی کمٹمنٹ کی وجہ سے سب ان کا احترام کرتے ہیں۔ ھندوستان ہی نہیں بلکہ ساوتھ ایشیاء اور دُنیا بھر کی انقلابی تحریکوں کے لیے کامریڈ سیتارام کا انتقال ایک بہت بڑا دھچکا اور ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔