ایک فلسطینی دوست سے پوچھا کہ یہ آپ لوگوں نے کیا کردیا؟۔ آپ لوگوں کو علم تھا کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل سےآپ کا کوئی مقابلہ نہیں اورغزہ کے لوگوں کے پاس ہجرت کا راستہ بھی نہیں لیکن آپ لوگوں نے اسرائیل پر حملہ کرکے اسے چھیڑ دیا جو اب فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اور آپ یا ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ ان کا جواب تھا کہ آپ کا سوال آپ لوگوں یا کسی اور خطے کی مناسبت سے درست ہے لیکن فلسطین کیلئے درست نہیں ۔ ہم تو برسوں سے غلام ہیں۔ ہم تو دہائیوں سے مررہے ہیں۔ ہمارے بچےعرصہ دراز سے لقمہ اجل بن رہے ہیں لیکن دنیا کو خبر بھی نہیں ہوتی ۔ اب بھی وہی کچھ ہورہا ہے لیکن کم ازکم دنیا کو تو علم ہورہا ہے۔ ہم سب شہادت کی موت کے لئے تیار ہوگئے ہیں ۔ کچھ روز قبل میرے بہنوئی ایسے عالم میں مارے گئے کہ ان کی لاش پہچانی نہیں جارہی تھی اور پھر وزن کے حساب سے اندازہ لگا کر ان کے نام سے ان کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔اس حساب سے دیکھا جائے تو فلسطینیوں کی مزاحمت عقل و خرد سے ماورا ہوچکی ہے ۔چند لاکھ کی آبادی کے شہر غزہ کی پچاس ہزار سے زائد جانوں کی قربانی اپنی مثال آپ ہے لیکن دوسری طرف اسرائیل کی سفاکیت اور بہیمیت کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ عین اسی وقت حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو ساتھیوں سمیت نشانہ بنایا گیا جب نیتن یاہو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تقریر کررہے تھے ۔لیکن اسرائیلی وزیراعظم کا رویہ نہایت فرعونانہ ہوگیا ہے ۔ آپ اسےاقوام متحدہ کی قرارداد کا حوالہ دیں تو وہ کہتا ہے جوتے کی نوک پر ۔ آپ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی طرف متوجہ کریں تو وہ کہتا ہے جوتے کی نوک پر ۔ فرانس جیسے ملک کے صدر نے صرف ایک نسبتاً منصفانہ بیان دیا تو جواب ملا جوتے کی نوک پر ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران اسرائیلی وزیراعظم کسی ملک کے وزیراعظم نہیں بلکہ فرعون کے لہجے میں بول رہا تھا ۔ ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ اور بیروت میں حسن نصراللہ (جن کو اگلے چوبیس گھنٹوں میں مارنا ان کے علم میں تھا) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اور جب تک ہمارے یرغمالی واپس نہیں ہوتے ۔ اس کے ساتھ انہوں نے پورے مشرق وسطیٰ کو ان الفاظ میں للکارا کہ مشرق وسطیٰ کا کوئی علاقہ ہمارے نشانے سے باہر نہیں ۔
غزہ کی ایک سال کی جنگ نے ثابت کردیا ہے کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کے مصداق فلسطینیوں کی مدد کوئی نہیں کرسکتا ۔ میاں شہباز شریف اور ترکی کے صدر اردوان نے انتہائی جذباتی اور اسرائیل مخالف تقاریر کیں لیکن ظاہر ہے کہ پاکستان سفارتی کوششوں سے آگے کچھ کر سکتا ہے اور نہ ترکی ۔
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ امریکہ اور برطانیہ کے انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے نعرے محض ڈھونگ ہیں ۔ اسرائیل کچھ بھی کرے تو یہ ممالک اس کا ہاتھ روکنے کی بجائے الٹا سند جواز فراہم کرتے رہیں گے ۔ ڈونلڈٹرمپ اور کملا ہیرس کے صدارتی مکالمے میں اس پر مباحثہ نہیں ہورہا تھا کہ میرا مخالف اسرائیل کا حامی ہے بلکہ اس پر ایک دوسرے کو طعنے دئیے جارہے تھے کہ میں اسرائیل کا زیادہ حامی ہوں اور میرا مخالف فلسطین سے ہمدردی رکھتا ہے ۔ گویا ٹرمپ صدر بنے یا کملا ہیرس وہ اسی طرح ڈٹ کر اور کھل کر اسرائیل کو ہتھیار اور تھپکی دیتے رہیں گے۔
تیسری بات یہ ثابت ہوئی کہ اقوام متحدہ انصاف کرنے والا ادارہ نہیں رہا۔ اصل فورم یعنی سلامتی کونسل سے اسرائیل جیسے ملکوں کے خلاف قرارداد پاس کرنا محال ہوگیا ہے ۔ ویسے بھی اقوام متحدہ عدل کی بنیاد پر نہیں بنا تھا بلکہ وقت کی طاقتوں کے مابین ایک بیلنس لانے کے لئے اسے تشکیل دیا گیا تھا لیکن اب تو وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑی طاقتوں اور بالخصوص امریکہ کا ہتھیار بنتا جارہا ہے ۔ اسرائیل کی بدمعاشی اور اقوام متحدہ کی بے بسی دیکھ لیجئے کہ اس کے جنرل سیکرٹری نے جب اپنے ضمیر کی آواز پر ایک آدھ بیان دیا تو اسرائیل نے اسے ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر اس کے اپنے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی۔
چوتھی بات یہ ہے کہ نہ جانے آگے جاکر کیا ہوگا لیکن اب کی بار قیادت کے لحاظ سے ایران ، حماس اور حزب اللہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ پہلے ایرانی پاسداران کے سربراہ قاسم سلیمانی کو عراق میں نشانہ بنایا گیا ۔ کچھ عرصہ قبل حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو ایران میں،جہاں وہ ایرانی صدر کی تدفین کی رسومات میں شرکت کے لئے گئے تھے، نشانہ بنایا گیا۔ پھر بیروت میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو کئی ساتھیوں سمیت نشانہ بنایا گیا اور اب باقی قیادت کی زندگی بھی خطرے سے دوچار ہے ۔ ویسے یہ میزائل بھی امریکہ نے عطیہ کئے ہیں اور یوں اسرائیل مخالف قیادت کی شہادتوں کا کریڈٹ بھی امریکہ کو جاتا ہے۔