عائشہ فردوس
لولو ایک بھالو کا بچہ تھا، جو اپنے امی ابو اور دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ پہاڑی جنگل میں رہتا تھا۔ ہر سال موسم سرما سے قبل وہ اور اس کا خاندان سردیوں کے لیے کھانا جمع کرلیتے۔ بڑا بھائی ہونے کے ناطے وہ اکثر اپنے امی ابو کے ساتھ شکار پر بھی جایا کرتا تھا۔ لیکن اس سال غیر متوقع طور پر شکار کی شدید قلت تھی۔
نہ تو ان کو بہتے دریا میں مچھلیاں مل رہی تھیں اور نہ ہی خرگوش وغیرہ۔ درختوں پر شہد بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس صورتحال سے لولو کے والدین کی طرح تمام ہی بھالو پریشان تھے۔ اگرچہ وہ سردیوں کا زیادہ تر حصہ سو کر گزارتے تھے، تاہم کھانا تو ضروری تھا۔ اگر وہ ابھی کھانا جمع نہ کرتے تو پوری سردیاں کیسے گزارہ کرتے۔
اپنے والدین کی پریشانی دیکھ کر لولو بھی بہت فکرمند تھا۔ اسے صورتحال کا مکمل علم تو نہ تھا لیکن غذا کی قلت کا اسے بھی اندازہ تھا۔ وہ اس مشکل وقت میں اپنے خاندان کی مدد کرنا چاہتا تھا۔
ایک روز وہ امی ابو کو بتائے بغیر اپنے غار سے نکل کر دریا کی جانب چل پڑا۔ کافی دیر تک درختوں کے درمیان نیچی ڈھلان اترنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ راستہ بھول گیا ہے۔ اس نے سوچا کہ شاید اس راستے پر جانے سے کھانے کا کوئی ذریعہ تلاش کر لوں، یہ سوچ کر وہ چلتا رہا۔ مزید آگے جا کے اسے ایک غار دکھائی دیا۔ پہلے تو وہ اسے دیکھ کر ذرا ہچکچایا لیکن پھر وہ غار میں داخل ہو گیاجو کافی لمباتھا۔ دراصل وہ ایک سرنگ تھی جوکچھ لوگوں نے بنائی تھی۔
کافی دیر تک چلنے کے بعد لولو کو ایک بڑا سا صندوق نظر آیا۔ تجسس کے باعث اس نے صندوق کھولا تو اس کے اندر انواع و اقسام کی مچھلیاں تھیں جن میں اس کی من پسند مچھلی بھی تھی۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو اسے مزید صندوق نظر آئے اس نے باری باری سب کو کھول کر دیکھا جن میں مارخور، خرگوش اور ہرن تھے۔ یہ سب دیکھ کر لولو کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
ادھر لولو کے امی ابو اور بھائی بہت پریشان تھے۔ اندھیرا چھانے کو تھا لیکن لولو کا اب تک کچھ پتا نہ تھا۔ انہوں نے اسے ہر طرف ڈھونڈا، دیگر بھالو بھی اس کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ ایک بھالو نے اُس کے والدین سے کہا کہ مجھے ایک نئی سرنگ نظر آئی ہے، جس میں کچھ لوگ ہیں۔ لولو کے ابو، بھالوؤں کا سردار اور پانچ بھالو اُس بھالو کے ساتھ سرنگ کی جانب روانہ ہوئے، وہاں تک پہنچنے میں کافی وقت لگا، اس وقت تک گھپ اندھیرا ہو چکا تھا لیکن سرنگ سے روشنی اور آوازیں آ رہی تھیں۔
تمام بھالو محتاط انداز میں سرنگ کی جانب بڑھے، قریب جانے پر انہیں کی گفتگو سنائی دی، وہ کہہ رہے تھے،
"آج تو ہمارے ہاتھ بڑا شکارآیاہے۔ اس بھالو کے تو ہمیں بہت پیسے ملیں گے، بس اس کو چھپا کر اسمگل کرناہے۔ یہ مردہ نہیں ہے اس لیے خاص احتیاط کرنی ہوگی۔"
یہ سن کر تمام بھالوؤں نے کہا کہ ہو نہ ہو لولو ان ہی کے قبضے میں ہے۔ انہوں نے فوری اندر جاکر اُن پر حملہ کر دیا۔ وہ تقریباً دس پندرہ لوگ تھے لیکن بھالوؤں کو دیکھ کر وہ حواس باختہ ہو گئے، انہیں اپنے ہتھیاروں کے پاس جانے کا موقع بھی نہ مل سکا۔ وہ خوف کے مارے جان بچا کر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گئے۔
ان کے جانے بعد لولو انہیں ایک بوری میں بے ہوش مل گیا۔ سردار بھالو دریا سے پانی لا کر لولو کو ہوش میں لایا۔ انہیں دیکھ کر لولو نے انہیں اس دوران انہیں مچھلیاں، ہرن، خرگوش اور مارخور کے بارے میں بتایا، جنہیں دیکھ کر وہ سب بہت خوش ہوئے کیونکہ سردیوں کے لیے کھانے کا انتظام جو ہوگیا تھا۔ وہ کھانا لے کرواپس اپنے ٹھکانے پر آگئے
صبح تمام بھالوؤں کو لولو کی واپسی اور کھانے کے ذخیرے کی خبر ہوئی تو بھالوؤں کی آبادی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ان سب نے لولو کی بہادری پر اسے داد دی، اس کے اس کارنامے کے سلسلے میں ایک دعوت کا انعقاد کیا گیا۔ اور یوں لولو کی بہادری سے تمام بھالوؤں کی سردیاں بہت سکون سے گزریں۔