حمیرا اپنے میاں کے ساتھ باہر جانے کے لیے تیار کھڑی تھی کہ خلافِ معمول اُس کی بڑی نند آگئیں۔ اب حمیرا شش و پنج میں پڑ گئی کہ باہر جائے یا پروگرام منسوخ کر کے شبانہ بیگم کی آئو بھگت کرے۔ اُس نے اپنے میاں کو بڑی مشکل سے آؤٹنگ کے لیے آمادہ کیا تھا، جنہیں دفتر ی کاموں سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔
ایسے میں حمیرا نے بڑی ہی اپنائیت سے اپنی نند سے کہا کہ ’’ آپ اتنے عرصے بعد ہمارے ہاں آئی ہیں۔ آپ کو اس طرح چھوڑ کر جانے کودل نہیں چاہتا، لیکن جانا بھی بہت ضروری ہے۔‘‘ جوابا ًہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نند صاحبہ اپنی بھاوج کو بہ خوشی جانے کی اجازت دے دیتیں، لیکن وہ طنز کے تیر چلاتے ہوئے بولیں ،’’مُجھے کیا معلوم کہ تمہارا دل کیا چاہ رہا ہے۔
تم نے تو بہن! اِدھر نند کو دیکھا اور باہر نکلنے کو تیار ہو گئیں۔‘‘ نند صاحبہ کی سنگ دِلی پر حمیرا کو بوجھل دل کے ساتھ آئوٹنگ کا پروگرام کینسل ہی کرنا پڑا ۔ اور پھر شبانہ بیگم نے بیٹھتے ہی بھائی اور بھاوج کے سامنے اپنی نئی نویلی بہو اور اس کے میکے کی شان میں ’’قصیدے‘‘ پڑھنے شروع کر دیے اور جب بہو اور اس کے خاندان والوں سے متعلق دل کی بھڑاس خُوب نکال چُکیں، تو پھر دیگر رشتے داروں اور محلّے والوں کی باری آگئی۔ الغرض، وہ جب تک بھائی کے ہاں بیٹھی رہیں، مستقلاً غیبتیں ہی کرتی رہیں۔
ہمارے معاشرے میں صرف دوسروں سے بھلائی کی توقّعات رکھنے اور اپنے گریبان میں جھانکے اور موقع محل دیکھے بغیر شکوے شکایات شروع کر دینے والے افراد کی کمی نہیں اور بعض اوقات تو ذرا سی بات پر بدگمانی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ ترکِ تعلق تک کی نوبت آجاتی ہے، کیوں کہ معمولی معمولی اور ناقابلِ گرفت باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور دوسروں کو معافی کی گنجائش نہ دینا بھی بہت سے لوگوں کے مزاج میں شامل ہوتا ہے، حالاں کہ اس قسم کا منفی اور شکایتی مزاج رکھنے والے افراد کو کبھی خود کو بھی اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑا کر کے خود پر بھی جرح کرنی چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ آیا ہر معاملے میں وہ ہی ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں اور دوسرا غلطی پر۔ نیز، انہیں دوسروں کی مشکلات کا بھی ادراک کرنا چاہیے۔
اپنے گردوپیش کا ماحول خوش گوار رکھنے اور باطنی امن و سکون کے لیے خود احتسابی ناگزیر ہے، جب کہ اپنی شخصیت کا تجزیہ کرنے کا عمل اُن افراد کے لیے تو از حد ضروری ہے کہ جو ہمیشہ تصویر کا منفی رُخ دیکھتے ہیں اور جنہیں ہمیشہ دوسروں سے شکایات ہی رہتی ہیں۔اصولاً ہم میں سے ہر ایک فرد کو روزانہ رات سونے سے قبل اپنا احتساب لازماً کرنا چاہیے کہ کہیں مَیں نے آج کسی کی حق تلفی تو نہیں کی، کسی کا دل تو نہیں دُکھایا۔ مَیں دِن بَھر میں کتنے لوگوں کے کام آیا اور کس کس موقعے پر نیکی کرنے میں پہل کی۔ اسی طرح مَیں کب تنازع ختم کرنے کے لیے حق پر ہوتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا اور اپنے طور پر معاملے کو سُلجھانے کی کوشش کی۔
یاد رہے کہ حق پر ہوتے ہوئے پیچھے ہٹ جانے والے کے لیے جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام کی خوش خبری ہے جب کہ اسی طرح عزیز و اقارب اور دوست احباب کی جانب سے شعوری یا لاشعوری طور پر کی گئی غلطیوں کو مستقلاً یاد رکھنا اور ماضی کی تلخیوں کو فراموش نہ کرناخودد کو اذیّت دینے کے مترادف ہے۔ لہٰذا، ہر روز رات سونے سے قبل ہمیں سب کو معاف کر کے سونا چاہیے۔
یاد رہے، عفوو درگزر کی صفت انسان کا درجہ و مرتبہ بلند کرتی ہے۔ واضح رہے کہ دینِ اسلام نے ہمیں دوسروں سے متعلق بدگُمانی سے بچنے اور حُسنِ ظن رکھنے کی تلقین کی ہے۔ سو، دوسروں سے متعلق شکایات کی پٹاری کھولنے سے پہلے اپنے گربیانوں میں جھانکنے کی سعی کیا کریں۔
ہر ایک سے شکوے شکایات رکھنا اور خود کو ہمیشہ مظلوم بنا کر پیش کرنا ایک طرح کا نفسیاتی عارضہ ہے، جو معاشرے میں کسی چُھوت کے مرض کی طرح پھیلتا جا رہاہے اور اس کے نتیجے میں رشتوں میں دراڑ یںپیدا ہورہی ہیں، تعلقات خراب ہورہے ہیں، گھر ٹوٹ رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنی اور متعلقین کی ذہنی صحت بھی متاثر ہورہی ہے۔ لہٰذا، خود بھی خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوشی خوشی جینے دیں۔ آپ کو دوسروں سے جتنی توجّہ اور محبّت مل رہی ہے، اس پر اللہ کا شُکر ادا کریں اور اسے بہترین انداز میں واپس لوٹائیں۔ یاد رکھیں کہ محبّت تقسیم کریں گے، تو ضرب ہو کر واپس آئے گی۔
اور ہاں، اگر آپ شکایتی مزاج رکھتی/رکھتے ہیں، تو کسی ایسے فرد کو اپنا دوست بنائیں کہ جس کی کھری کھری باتیں آپ کو ناگوار نہ گزرتی ہوں اور پھر اُس سے پوچھیں کہ فلاں معاملے میں میری کیا غلطی تھی۔ نبیٔ محترم و محتشم حضرت محمدﷺ کا فرمانِ پاک ہے کہ ’’مومن، مومن کا آئینہ ہوتا ہے۔‘‘ تو پھر ایک آئینہ آپ بھی ڈھونڈیں اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر سُنیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یقین مانیں، یوں آپ کی زندگی بھی سنورجائے گی اور آپ سے تعلق رکھنے والوں کی بھی۔ وہ بھی کیا ہے کہ؎ جب کسی سے کوئی گلہ رکھنا رکھنا…سامنے اپنے آئینہ رکھنا…گھر کی تعمیر چاہے جسی ہو…اُس میں رونے کی کچھ جگہ رکھنا۔