• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کرکٹ ٹیم اپنی کارکردگی میں عدم تسلسل کے حوالے سے مشہور ہے ۔ دنیا جانتی ہے کبھی ہماری کارکردگی آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہے تو اگلے ہی لمحے زمین کی پستیوں میں جاگرتی ہے۔ بدقسمتی سے آج کل اس پر ناقص کارکردگی کے مہیب سائے چھائے ہوئے ہیں۔ جیت کا حصول ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ ملتان میں انگلینڈ کے خلاف کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں قومی ٹیم نے نیا عالمی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے شرمناک شکست کا سامنا کیا۔ ٹیسٹ کرکٹ کی 147 سالہ تاریخ میں کوئی ٹیم 500رنز سکور کرکے اننگز کی شکست سے دو چار نہیں ہوئی مگر پاکستانی کھلاڑیوں نے یہ کارنامہ بھی اپنے نام کرلیا گویا اس کا ’’خودکش مشن ‘‘ مکمل ہوگیا اور بے بس قومی ٹیم ہوم گرائونڈ پر دو برس سے کوئی ٹیسٹ بھی نہ جیت سکی۔ اس تناسب سے وہ 9 ویں نمبریعنی سب سے بدترین پوزیشن پر ہے اور اس کا ٹیسٹ میچ نہ جیت پانے کا سلسلہ گیارہ میچوں تک دراز ہوگیا ہے۔ شان مسعود جنہیں پندرہ نومبر 2023کو جیت کے جذبے کے ساتھ کپتان بنایا گیا تھا ، انہوں نے بھی لگا تار 6ٹیسٹ میچ ہارنے کا منفی ریکارڈ اپنے نام کیا۔ قیاس آرائیاں ہیںکہ انہیں بھی انگلینڈ کے خلاف سیریز میں ہی کپتانی سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی کے بعد قومی ٹیم کا پورا منظر نامہ ہی تبدیل کردیا گیا تھا۔ معاملات کی درستی کے لئے بڑی سرجری کے دعوے بھی ہوئے مگر مرض لاعلاج رہا جو پی سی بی کے تمام ذمہ داروں کی اہلیت اور فرائض منصبی کی درست انجام دہی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟۔ کھلاڑیوں پر بے جا تنقید، ٹیم میں بلا ضرورت رد و بدل، پسند ناپسند، چیئرمین پی سی بی کی بار بار تبدیلیوں اور بورڈ کی بدلتی پالیسیوں نے بھی کارکردگی کو متاثر کیا۔ شکست کی وجوہات میں سے ایک ہوم گرائونڈ پر ایسی پچز نہ بنانا ہے جو ہمارے فاسٹ بولروں کے لئے سازگار ثابت ہوں۔ کرکٹ پاکستان کی گراس روٹس میں شامل ہے تاہم صرف عمدہ مینجمنٹ ہی اسے عالمی افق پر روشن اور درخشاںرکھ سکتی ہے۔

تازہ ترین