• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی قیادت 15؍ اکتوبر کو احتجاج پر منقسم، موخر کرنے کی کوشش جاری

اسلام آباد: (انصار عباسی) …پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور پارٹی کی سیاسی کمیٹی میں اس اقلیت میں ہیں جو 15؍ اکتوبر کو ڈی چوک میں احتجاج کرنے کیخلاف ہیں۔ 

پی ٹی آئی میں موجود سمجھدار عناصر احتجاج کی کال واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد آنے والے کئی غیر ملکی معززین کی موجودگی میں احتجاج کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ 

اسد قیصر، حامد خان اور رئوف حسن بھی اسی اقلیتی گروپ میں شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کے موقع پر پارٹی کا ایسا احتجاج پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ علی محمد خان اگرچہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کا حصہ نہیں ہیں لیکن وہ بھی 15؍ اکتوبر کی احتجاجی کال سے ناخوش ہیں۔

پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز گِل، حماد اظہر، خالد خورشید اور حافظ فرحت ان سخت گیر عناصر کی قیادت کر رہے ہیں جنہوں نے 15؍ اکتوبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے دو روزہ اجلاس کے پہلے دن احتجاج کی کال دینے کیلئے سیاسی کمیٹی کو قائل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 

یہ بات ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے لیکن ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ جیسے شخص نے بھی سخت گیر عناصر کی حمایت کی اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں یعنی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے مقام سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر احتجاج کے خیال کی تائید کی۔ 

سلمان اکرم راجہ سے موقف معلوم کرنے کیلئے رابطہ نہیں ہو پایا۔ اُن کے مقابلے میں دیکھیں تو عوام میں جارحانہ نظر آنے والے علی امین گنڈا پور نے عالمی تنظیم کے اجلاس کے موقع پر پی ٹی آئی کے احتجاج کیخلاف ووٹ دیا۔ مراد سعید پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کے رکن نہیں لیکن شاید وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے احتجاجی کال کے بارے میں ’’ایکس‘‘ پر ٹوئیٹ کی۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز گل اور حماد اظہر جیسے لوگ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کا استعمال پارٹی میں ایسے لوگوں کو نشانہ بنانے کیلئے کرتے ہیں جو 15؍ اکتوبر کو ڈی چوک پر احتجاج اور فلسطین کے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس کا بائیکاٹ جیسے فیصلوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

جو لوگ احتجاجی کال واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں خدشہ ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کوئی ناخوشگوار واقعہ یا پارٹی کے حامیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان کوئی تصادم ملکی مفاد میں نہیں ہو گا، ایسی صورتحال ایس سی او اجلاس کیلئے نقصان دہ ہو سکتی ہے اور سربراہانِ حکومت سمیت ہائی پروفائل غیر ملکی مہمان ناراض ہو سکتے ہیں۔

دی نیوز کے رابطہ کرنے پر پی ٹی آئی کے تین رہنمائوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ پاکستان کے مفاد میں 15؍ اکتوبر کے احتجاج کو ختم اور دورے پر آئے ہوئے غیر ملکی مہمانوں کے احترام کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

 ان میں سے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا عام ووٹر ایس سی او اجلاس کے موقع پر دی جانے والی احتجاجی کال سے خوش نہیں۔ ذرائع نے کہا کہ اگر احتجاج کی کال واپس نہ لی گئی تو کئی لوگ احتجاج میں شامل نہیں ہوں گے۔ تاہم، انہوں نے اعتراف کیا کہ اگر 15؍ اکتوبر کا احتجاج کامیاب ہو بھی گیا تو اس سے پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچے گا۔

اہم خبریں سے مزید