• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اپنے واضح نظریے و مقاصد کے عین مطابق ایک مثالی اسلامی جمہوریہ یعنی فلاحی ریاست بننےکے تمام مطلوب پوٹینشل ہونے اور پہلے مارشل لا میں غیر معمولی صنعتی و زرعی ترقی کے باوجود، پہلے 24 سال کے بعد دو لخت ہوگیا۔ اس (دولخت ہونے) کے 53 سال بعد (باقیماندہ) بھی آج مملکت بدترین آئینی بحران کے نتیجے میں انتہا پر پہنچے سیاسی و معاشی اور انتظامی عدم استحکام کے بڑھتے گراف سے ہیجان میں مبتلا ہو کر پریشان مملکت کیسے بن گیا؟ اس بڑے اور اہم ترین سیاسی سوال کا یکساں جواب تو ہم نے مختلف ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں اور عسکری عشروں میں اپنی ہی اجتماعی سیاسی دانش سے تلاش کرلیا تھا جو ہے، آئین سازی میں تاخیر، پھر متفقہ آئین کی تیاری اور قومی سیاسی عزم، متفقہ آئین (1973) کا اطلاق ہونا، لیکن نافذ ہوتے ہی سول بھٹو رجیم میں ہی خود آئین ساز بھٹو حکومت کی جانب سےپریشان کن سینہ زوری اور فسطائی حربوں سے سنگین خلاف ورزیاں کرنا، جیسا کہ: اپوزیشن کو مسلسل ہراساں اور دبائو میں رکھنا، میڈیا کی آزادی کوسلب کئے رکھنا، نیشنل پریس ٹرسٹ کو ختم کرنے کے انتخابی منشور سے مکمل انحراف، حزب اختلاف کے رہنمائوں کے خلاف مضحکہ خیز مقدمات اور ان کی ابتدائی سماعت عام سول عدالتوں کی بجائےاسپیشل ٹربیونلز کا قیام، اپوزیشن کو حق احتجاج سے باز رکھنے کیلئے جلسے جلوسوں کو سرکاری ظلم و جور سے روکنا، تمام ضمنی انتخابات میں کھلی دھاندلی سے حکومتی امیدواروں کو جتوانا، حکمران جماعت میں ہی اختلاف کی جرأت کرنے پر اپنے ہی وفا شعار اراکین اسمبلی، قیادت کی کور ٹیم کے فعال پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کو قید و بند کی صعوبتوں میں رکھنا اور پہلے ہی عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے پولنگ ڈے پر ملک گیر دھاندلیاں، متحدہ اپوزیشن پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں کے بائیکاٹ کی اپیل پر عوام الناس ہی کے ایٹ لارج بائیکاٹ نہیں بلکہ حکمران جماعت کے اپنے کارکنوں کے اخلاقی اور سیاسی دبائو میں گھروں میں دبکے رہنے کے باوجود سنسان و ویران پولنگ اسٹیشنوں پر ٹیلر میڈ ٹرن آئوٹ اور نتائج سے حاصل ’’شاندار فتح‘‘ کے فوراً بعد ہی پی این اےکی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک، جو بعد میں بڑی سیاسی حکمت سے تحریک نظام مصطفیٰ میں تبدیل کر دی گئی، کے خلاف حکومتی فسطائی مزاحمت سے بھی قابو نہ آئی۔ ازسر نو انتخاب کے مطالبے کو مسترد کرکے 28نشستوں پر دھاندلی کا اعتراف کرتے یہ نشستیں پی این اے کو دینے کی پیشکش مسترد ہوگئی، بعد ازاں اندرونِ خانہ چالیس تک کے پیغامات و اشارے ہوتے رہے لیکن حکومت نئے انتخابات کی طرف نہ آئی، نہ پی این اے سودے بازی کی طرف آئی، بالآخر مذاکرات شروع ہوئے جو کتنے ہی مراحل کے بعد کامیاب ہوتے بھی نظرآ رہے تھے تو پی این اے کا نصف سیٹ اپ بھٹو حکومت کے ساتھ انتخاب میں جانے کا قائل تھا نہ احتجاجی پیپلز ایٹ لارج اس سے مطمئن تھےنتیجتاًمارشل لا لگ گیا، لگا تو احتجاجی تحریک کے دوران بھی تھا لیکن کراچی، لاہور اور حیدر آباد میں لاحاصل۔سو احتجاجی تحریک کی شدت کے باعث دو اڑھائی ہفتے میں ہی ختم کرنا پڑا (یا شاید عدالتی آرڈر سے فیس سیونگ ہوئی تھی)۔

قارئین کرام! سقوط ڈھاکہ کے بعد متفقہ آئین سازی اور دستور کے اطلاق کے بعد بھی بدترین سیاسی کھلواڑ اور نفاذِ دستور کے ساتھ ہی اس کی سنگین خلاف ورزیوں کی متذکرہ مبنی برحقائق کہانی ، اس کے نکلے مہلک اور فوری نتائج، 10 سالہ مارشل لا کا نفاذ اور بھٹو صاحب کی متنازعہ پھانسی، پھر اس کے پس پردہ دھاندلی زدہ انتخاب اور احتجاجی تحریک میں 342شہدائے بحالی جمہوریت کی جانو ں کا نذرانہ، یقیناً موجودہ پرآشوب حالات حاضرہ میںگڑے مردے اکھاڑنے والی بات ہی لگتی ہے لیکن آج پی پی جو ضیاء دور میں اپنے رہنمائوں کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف جبر و استبداد کے حوالے سے جمہوری ہونے اور قربانیوں کی دعویدارہے، ٹھیک تو ہے لیکن اس کے وارثین نے 8فروری کی ملک گیر پولنگ میں عوام کے ’’اپوزیشن‘‘ کو دیئے گئے مینڈیٹ کے غصب کرنے کوبغلیں بجاتے قبول کیا۔ فالو اپ میں پی ڈی ایم ۔2 کی سیڑھی سے اقتدار کے ایوانو ں میں اپنے ایکٹو حکومتی پارٹنرز کے ساتھ اپنا بھی تسلط جمایا اور عوامی مینڈیٹ کو ڈکارمارے بغیر ہضم کر لیا، اسے ہی کافی نہیں سمجھا اب اس دھماچوکڑی میں سے وہ الیکشن نتائج کی واپسی یا نئے الیکشن کے بجائے جس طرح کھلی آئین شکنی اور لاقانونیت و دوقانونیت کو اپنے محسن مولانا صاحب کے برعکس ہضم ہی نہیں کررہی، پی پی، پی ڈی ایم کی سیڑھی سے اپنے اقتدار کی راہ نکالنے کیلئے سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات اور منطقی و قانونی فیصلوں کو روندتی ٹیلر میڈ نظام عدل و انصاف سے ملک پر مسلط ہوتی برابر کی بے تاب و سرگرم ہے۔ اسے یاد دلانا اور انتباہ کرنا لازم ہے کہ انکے پہلے دور میں ایسی ہی دھماچوکڑی سیاست اور آئین شکنی نے ملک کو ایک مارشل لا، قیادت سےمحرومی کے المیے اور برسوں کی ابتری اور قوم کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا۔پی ڈی ایم۔2 میں ن لیگی غلبے سے اس کی کل چالیس سالہ سیاست آئی پی پیز کے عوام دشمن پروجیکٹس کے ساتھ بے نقاب ہوئی گورننس، متروک ہارس ٹریڈنگ کی بحالی میں کردار اور 47 والی حکومت کے تحفے کی قبولیت سے جس طرح وہ عوام اور اپنے کور گروپ کے باضمیر پیاروں سے کٹی ہے اس کے بعد آئین کا حلیہ بگاڑنے والی بات تو اب چھوٹی ہوگئی، دستور کی جڑیں کاٹیں اور بنیادی ڈھانچہ 47والی اکثریت سےسبوتاژ کرنےپر تلی ہوئی ہے اس کا سیاسی خمیازہ بھگتنا نہیںپڑے گا ؟ ن لیگ طاقتور پشت پناہی سے قومی اور عوامی مفادات کی جس قیمت پر بھگتا رہے ہیں اس میں اس کی جتنی سیاسی کمائی لٹ گئی اور لٹ رہی ہے ایسے میں اب وہ میاں صاحب کے خوابوں میں بسی خلائی مخلوق کے گلے کا تعویز ہی ہے۔

اسٹرکچرل چینج کے نام پر ٹیلر میڈ آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے جو کچھ کیا جا رہا ہے، جس مقصد کیلئے جیسے اور جو کر رہا ہے اس سے آئین پاکستان خود اور اس کی چھتری تلے سب ریاستی ادارے غیر آئینی تابعداری سے اور منفی کردار سے ملکی سیاسی عدم استحکام تو مستقل شکل اختیار کرے گا ہی، داخلی سیاست میں اتنی دھماچوکڑی مچے گی کہ ’’نفاذ آئین‘‘ کا خواب چکنا چور ہو جائے گا،اس سارے کھیل میں عوام کو مکھن سے بال کی طرح نکال کرپھینک دیاگیا ہے۔ جبکہ اس کا گہرا تعلق عوام کی مرضی و منشا سے ہے۔ سیاسی مہم جوئی سے یہ ہدف حاصل کربھی لیا تو سیاسی و معاشی استحکام اور مسخ آئین شہریوں کے لئے ڈرائونا خواب بن جائے گا۔ وماعلینا الاالبلاغ۔

تازہ ترین