• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بریسٹ کینسر کیوں ہوتا ہے؟ بچاؤ کیسے ممکن؟

--- فائل فوٹو
--- فائل فوٹو

دُکھ بیماری زندگی کا حصہ ہیں، تاہم کچھ موذی بیماریاں ایسی ہیں جو بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔

ایسی ہی موذی بیماریوں میں سے ایک بریسٹ کینسر بھی ہے، جو ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے، تاہم آگاہی نہ ہونے اور احتیاط نہ کرنے کے باعث کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں اس موذی مرض کا شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 

اس بیماری سے متعلق شعور کی کمی اور صحت کی خدمات کی ناکافی سہولتیں یا فقدان اکثر بریسٹ کینسر میں مبتلا مریضوں میں دیر سے تشخیص کا سبب بنتی ہے۔

دنیا بھر میں 16 فیصد خواتین بریسٹ کینسر میں مبتلا

دنیا بھر میں خواتین کی 16 فیصد آبادی بریسٹ کینسر میں مبتلا ہے، ہر سال یہ مرض تقریباً 20 لاکھ خواتین کو متاثر کرتا ہے، جن میں سے تقریباً 15 فیصد خواتین اس موذی مرض کے سبب موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر 9 میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر کے خطرے سے دو چار ہے، ہر عورت میں اوسط عمر کے دوران بریسٹ کینسر کا خطرہ 12 فیصد پایا جاتا ہے۔

آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو ایشیائی خواتین میں بریسٹ کینسر کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے، ملک کی 1 کروڑ سے زائد خواتین میں بریسٹ کینسر ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ 

عام طور پر یہ مرض ایسی خواتین میں کم پایا جاتا ہے، جو بچوں کو 2 سال کی عمر تک دودھ پلاتی ہیں۔

اگر صحتِ عامہ کے مناسب پروگرام ترتیب دیے جائیں تو بریسٹ کینسر میں اضافے کو کم کیا جاسکتا ہے۔

بریسٹ کینسر کی وجوہات

جسم کے پٹھے چھوٹے خلیوں سے مل کر بنتے ہیں اور یہی خلیے اگر بے قابو انداز میں بڑھنا شروع ہو جائیں اور گلٹی بنا لیں، تو یہ مرض کینسر بن جاتا ہے۔

چھاتی میں بننے والی گلٹی (بریسٹ لمپس) کو پولی سسٹک یا فائبرو سسٹک کہا جاتا ہے، یہ سائز میں بڑھ بھی سکتی ہے اور اس کی جڑیں چھاتی میں پھیل سکتی ہیں، اس کے نتیجے میں چھاتی میں تکلیف اور ساخت میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے، مریض اور مرض کی نوعیت کے مطابق یہ علامات مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔

چھاتی کے اندر، باہر یا نیچے کی جانب زخم بڑھ کر بعض اوقات کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اس کی شکایت 25 فیصد خواتین کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہو سکتی ہے، تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسی کئی گلٹیاں کینسر کا باعث نہیں ہوتیں اور اکثر غیر مضر ہوتی ہیں، تاہم ان گلٹیوں کی موجودگی میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

بریسٹ کینسر عموماً خواتین میں ہوتا ہے لیکن مَردوں میں بھی اس کے خطرات پائے جاتے ہیں مگر ایسے کیسز بہت نایاب ہیں۔ 

یہ کینسر انفیکشن نہیں کرتا اور دوسروں میں منتقل نہیں ہوتا۔ 

بریسٹ کینسر یا کسی بھی دوسرے قسم کے کینسر سے متاثرہ مریض سے میل جول قائم رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے متاثرہ مریض سے کوئی امتیازی سلوک روا رکھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والا کینسر

بریسٹ کینسر کی وجوہات

ذیل میں بیان کی گئی چند بنیادی باتیں بریسٹ کینسر کی وجہ بنتی ہیں۔

٭ خواتین میں ہارمونز کا غیر متوازن ہونا بریسٹ کینسر کا ایک سبب ہے۔

٭ جسم میں ایسٹروجن ہارمون کی زیادتی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔

٭ لڑکیوں کی تاخیر سے شادی یا زائد عمر میں بچے کی پیدائش ہونا، تاہم جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں، ان میں بریسٹ کینسر کا امکان 4 فیصد کم ہو جاتا ہے۔

٭ تقریباً 10 فیصد بریسٹ کینسر جینیاتی نقائص کی وجہ سے ہوتاہے۔ ان نقائص کی حامل خواتین میں اس مرض کے 80 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔

٭ خواتین کا غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی اور غیر متوازن خوراک لینا۔

بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

بریسٹ کینسر کی جلد تشخیص ہی اس مرض کو بڑھنے سے روکنے اور علاج کا ذریعہ بنتا ہے لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب اس مرض کے حوالے سے بنیادی آگاہی حاصل ہو۔ 

یہ بھی پڑھیں : چھاتی کے کینسر سے بچاؤ کیلئے اجتماعی کوششیں

اس حوالے سے خواتین کا خود تشخیصی عمل کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔

انہیں پہلے گھر میں خود اپنا معائنہ کرنا چاہیے اور چھاتی میں کسی بھی قسم کی غیر معمولی تبدیلی محسوس ہونے پر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

اگر بریسٹ کینسر کا جلد پتہ چل جائے اور مناسب تشخیص اور علاج دستیاب ہو جائے تو اس بات کے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ یہ بیماری ٹھیک ہو جائے۔

تاخیر سے پتہ چلنے کی صورت میں اکثر علاج کا آپشن نہیں رہتا، ایسے معاملات میں تکلیف کی شدت کو کم کرنے کے لیے مریض کو دوا دی جاتی ہے۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بریسٹ کینسر کے لیے اسکریننگ ٹیسٹ 40 سال کی عمر میں شروع کی اجاتا ہے، تاہم سالانہ میموگرافی اور مرض کی بر وقت تشخیص کے ذریعے اس مرض سے بچا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چھاتی کا کینسر عام ہونے کی بڑی وجہ آگاہی کی کمی

بذریعہ آگہی مرض کی شرح اور اموات میں کمی ممکن

معاشرے میں اس موذی مرض کے حوالے سے جتنی زیادہ آگہی ہو گی تو عین ممکن ہے کہ اس مرض سے ہونے والی اموات اور مرض کی شرح میں کمی آ سکے۔

خواتین کے لیے لازمی ہے کہ وہ ایسا طرزِ زندگی اختیار کریں جو انہیں اس مرض سے دور رکھ سکے۔

ورزش، فائبر سے بھرپور غذاؤں اور چربی کا کم استعمال، تمباکو نوشی سے گریز اور مناسب نیند جیسی عادات کو اپنا کر بریسٹ کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔

صحت سے مزید