• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناہید خان

’’دیکھو، پلیز، مت چھینو، یہ میری بہت محنت کی کمائی ہے۔‘‘ نوجوان نے منّت کی۔ ’’دیتا ہے یا اُڑا دوں کھوپڑی…؟؟‘‘ ڈکیت نے اُس کے سر پر گن تانی اور بیگ چھیننے لگا۔ ’’دوست! ایسا مت کرو، اِس رقم سے مجھے کرائے کے گھر سے نجات ملنی ہے۔ میرے گھروالوں کو سکون نصیب ہونا ہے۔ نہیں، نہیں… مَیں نہیں دوں گا یہ۔‘‘ نوجوان اچانک بپھر کر بولا۔ اور پھر… دفعتاً بیگ پر اُس کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔ گولی اُس کے سر میں پیوست ہوگئی تھی۔

مَیں نے اپنےموبائل سے نہایت احتیاط کے ساتھ یہ تمام مناظر شوٹ کیے تھے۔ ’’ایک بار یہ وڈیو اَپ لوڈ ہوجائے، بس پھرلائک، کمنٹس کے ساتھ ملین تو کراس کرے گی۔‘‘ مَیں بہت پُرجوش ہوکر اپنی دکان سے نکلا اور پاس سے بھاگتے ڈکیت کا آخری شاٹ لیتے ہوئے خُود کلامی کی۔ 

اِسی افراتفری میں لڑکھڑا کر کُھلےگٹرمیں گرتے گرتے بچا۔ ’’کیا مصیبت ہے، 75 سالوں میں ہم نے یہ پایا ہے، کُھلے گٹر اور چند روپوں کے خاطر جان لیتے ڈکیت۔ اقبال تیرے خواب کی کیا خُوب تعبیر ہے!‘‘ مَیں، اگست کے موقعے پر دیوار پرآویزاں کیے گئے علامہ اقبال کے لگے پوسٹر کو دیکھ کر بہت طنز سے ہنسا تھا۔ ایمبولینس ڈیڈ باڈی اُٹھانے آ چکی تھی۔ پولیس موبائل بھی پہنچ گئی تھی۔ چاروں طرف کان پھاڑ دینے والا شور تھا۔

’’بیٹا! گن والا تمھاری پہنچ میں تھا، چاہتے تو ہاتھ بڑھا کر دبوچ لیتے، بدبخت ڈرا ہوا تو تھا کتنی مزاحمت کرتا۔‘‘ اچانک میری دکان کے پاس ہی فروٹ کا ٹھیلا لیے کھڑے انکل نے بڑے تاسف سے مجھے مخاطب کیا۔ ’’مجھے گولی ماردیتا وہ…‘‘ مَیں نے وڈیو سیٹ کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’سوچو، اُس کی جگہ تمھارا بھائی ہوتا، تو تم کیا کرتے، اُس کے مرنے کی وڈیو بناتے…؟‘‘ انکل کی بات پر میری موبائل اسکرولنگ یک دَم رک گئی اور مَیں اُن کی شکل دیکھنے لگا۔ 

وہ ٹھیلا دھکیلتے میرے قریب آئے اورآنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بولے۔ ’’یہ ہی بےحِسی کھا رہی ہے، اِس مُلک کو۔ کیا اقبال نے الگ وطن کا خواب اِس لیے دیکھا تھا کہ قوم، یومِ آزادی پر باجے بجائے، پرچمی لباس پہنے اور بےحس بن کر چند روپوں اور شہرت کے عوض مرتے لوگوں کی ویڈیوز بنا کےخُود کو ہیرو سمجھے۔ ہم آسائشوں کے غلاموں نے کرپٹ نظام کو اپنا نصیب سمجھ کر اپنالیا ہے۔ 

کسی ظلم پر ہماری آواز نہیں اُٹھتی۔ جاؤ، جا کر بچّوں کو دو قومی نظریے کا مطلب سمجھاؤ، کتنی ٹرینیں کٹ گئی تھیں، اِس خواب کو پانے کے لیے، یہ بتاؤ اُنھیں۔ یاد رکھو، اگر آج آزادی کی یہ کہانی منتقل نہ ہوئی، تو نئی نسل باجے بجانےاور پرچمی لباس پہننے ہی کو آزادی مان لےگی۔‘‘

وہ بڑبڑاتے بڑبڑاتے، اپنا ٹھیلا گھسیٹتے دُور جا چُکے تھے۔ مَیں نے مُڑ کر ایمبولینس میں پڑی نوجوان کی لاش کی طرف دیکھا۔ بہت دیر ہوچُکی تھی، بہت دیر۔ ’’مگر نہیں، ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی۔‘‘ مَیں نے فوراً پولیس موبائل کی طرف دوڑ لگا دی کہ میری ویڈیو میں بائیک نمبر اور ڈکیت کا حلیہ واضح تھا۔

سنڈے میگزین سے مزید