قارئین! کئی ہفتوں کی بھاگ دوڑ اور سیاسی جوڑ توڑ کے بعد آخر کار پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ اور ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی نے 26 ویں آئینی ترمیم 2 تہائی اکثریت سے منظور کر لی ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس کی توثیق کرتے ہوئے اس پر دستخط بھی کر دئیے ہیں۔ سینیٹ میں 2تہائی اکثریت کے حصول کیلئے 64 ووٹ درکار تھے اور 26ویں ترمیم کے بل کے حق میں65 ووٹ پڑے جبکہ 4نے اس کی مخالفت کی۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں2 تہائی اکثریت 224ووٹوں سے بنتی ہے جبکہ ترمیم کے حق میں 225 ووٹ پڑے اور پاکستان تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل کے 12 ارکان نے اس ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
سینیٹ میں پیش کئے جانے سے قبل وفاقی کابینہ کے اہم اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے کی منظوری دی گئی۔ جس میں وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترمیم پر دوبارہ تفصیلی بریفنگ دی۔ وفاقی کابینہ نے حکومتی اتحادی جماعتوں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی کے 26ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ منظور کر لیا جس کے بعد وزیر قانون نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کیلئے تحریک سینیٹ میں پیش کی جہاں اسے ملنے والے 65ووٹوں میں حکومتی ووٹ 58، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے 2اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے 5 ووٹ شامل تھے۔ مخالفت کرنے والوں میں 4 ووٹرز، تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر، سینیٹر عون عباس، سینیٹر حامد خان تھے جبکہ مجلس وحدت المسلمین کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر راجہ ناصر عباس نے ووٹ نہیںدیا۔
ترمیم پیش ہونے سے پہلے وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ بلاول بھٹو نے آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے ان تھک محنت کی، اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ترمیم پر اتفاق رائے ہوا اور 26ویں آئینی ترمیم آج پارلیمنٹ میں پیش ہونے جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی پیکیج انصاف کی فوری فراہمی سے متعلق اہم قدم ہے، چیف جسٹس پاکستان کی تقرری اس پیکیج کا حصہ ہے اور چیف جسٹس کی مدت3 سال مقرر کی گئی ہے اور ترمیم میں صوبوں میں آئینی بنچز کا میکنزم شامل کیا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے اس میں شقیں شامل ہیں، غیر مسلم ممبر کو بھی جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنایا جائے گا جبکہ صوبائی جوڈیشل کمیشن کی شکل وہی رہے گی مگر جو نئی چیز شامل کی وہ پرفارمنس ایویلیو یشن ہے۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ جے یو آئی نے آئینی ترامیم میں 5تجاویز دی ہیں، جے یو آئی کی سود سے متعلق تجویز کو آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے بھی سود کے خاتمے سے متعلق آبزرویشن دی تھی، یکم جنوری 2028 سے سودی نظام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے 26ویں آئینی ترمیم کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح یہ ترمیم ہو رہی ہے وہ میرے خیال میں جرم ہے۔ ہمارے ساتھی گرفتاری کے خوف کی وجہ سے نہیں آئے۔ آئینی ترمیم کیلئے لوگوں کو زد و کوب کرکے ووٹ دینے کا عمل مکمل کیا گیاہے، لوگوں کی رضا مندی شامل نہیں، یہ عمل آئین اور جمہوریت کی خلاف ورزی ہے۔ وفاقی وزیر قانون نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے درمیان میثاق جمہوریت سے یہ معاملہ شروع ہوا۔ نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو نے آئینی عدالت کے بارے میں بات کی تھی، اپوزیشن سے تجویز آئی کہ آئینی عدالت کی بجائے آئینی بنچ پر اتفاق کیا جائے جبکہ سوموٹو سے لے کر چیف جسٹس کے تقرر تک کے معاملات بھی ترمیم میں شامل کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے جناب جسٹس یحییٰ آفریدی کو ملک کا اگلا چیف جسٹس نامزد کردیا ہے۔ نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی 26ویں ترمیم کا پہلا بڑا امتحان تھا۔ آئینی ترمیم کی رو سے نئے چیف جسٹس کے نام کی منظوری موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 3روز قبل ہوجانی چاہیے، چنانچہ سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کو وہ 3نام بھیج دئیے گئے جن میں سے حکومت اور حزب اختلاف پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی نے اتفاق رائے سے کسی ایک نام پر اتفاق کرنا تھا۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف نے اس خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔اس طرح نئے چیف جسٹس کی نامزدگی کے فیصلے میں صرف حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں ہی شریک ہو سکیں ۔حزب اختلاف نے اس عمل کا حصہ بننے سے انکار کر کے اپنی اسی پالیسی کو آگے بڑھایا ہے جو اس نے 26آئینی ترمیم پر ووٹنگ کے دوران اختیار کی تھی۔ بہرحال حزب اختلاف جمہوری نظام کی ایک اہم شراکت دار ضرور ہے، چنانچہ پارلیمانی کمیٹی نے حزب اختلاف کے ارکان کو کمیٹی میں شمولیت کیلئے آمادہ کرنے کی غرض سے دوبارہ اجلاس مؤ خر کر کے تیسری بار شروع کر دیا اور آپس میں بیٹھ کر 2تہائی اکثریت سے یہ فیصلہ کرلیا کہ جناب جسٹس یحییٰ آفریدی اگلے چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی پہلی بار ہونے جا رہی ہے۔ حکومت اسے پارلیمان کی بالا دستی کا ایک ثبوت قرار دیتی ہے۔
اگر یہ فیصلہ پارلیمانی اتفاق کا مظہر ہوتا تو پارلیمانی بالادستی کو زیادہ تقویت ملتی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے بھیجے گئے تینوں ناموں میں وہ سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔ ان سے پہلے بالترتیب جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ کے نام تھے ۔بہر کیف آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل ہو چکا ہے اور یہ تعیناتی ماضی کی طرح سینیارٹی کے مطابق نہیں بلکہ پارلیمانی کمیٹی کی منشا کے مطابق ہوئی ہے۔ جناب جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام پر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی اکثریت کا اتفاق انہیں اس منصب جلیلہ کا صحیح طور پر حقدار ثابت کرتا ہے۔ اگر حزب اختلاف بھی تعیناتی کے اس عمل میں شامل ہوتی تو کیا پھر بھی فیصلہ اسی طرح ہوتا،اس بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی البتہ یہ واضح ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بھیجے گئے تینوں جسٹس صاحبان کی مہارت، سوجھ بوجھ اور دیانت و لیاقت میں کوئی شبہ نہیں۔