قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جنہوں نے اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیا تو ان پر کوئی الزام نہیں۔ الزام تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم اور زمین میں بغیر کسی حق کے سرکشی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے اور جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو بے شک، ایسا کرنا بلند ہمت کاموں میں سے ہے‘‘(سورۂ شوریٰ،:۴۱ تا ۴۳)
چنانچہ جب آپ پر کوئی اذیت کسی کی طرف سے آئے تو آپ کے لیے دو راستے ہیں، ایک یہ کہ آپ اس آدمی سے انصاف کے مطابق بدلہ لے لیں اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ اسے معاف کردیں اور اس کی اذیت پر صبر کریں۔ قرآن مجید کے نزدیک یہی دوسرا راستہ بہتر اور پسندیدہ ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صبر سے مراد یہ ہے کہ آپ دوسروں کی ان خطاؤں سے درگزر کریں، جو آپ کے لیے باعث اذیت و نقصان ہیں۔ اگر آپ نے صبر کیا تو معاف کرنا ہوگا۔ ورنہ آپ کاصبر بے معنی ہو کررہ جائے گا۔
قرآن مجید کے نزدیک عفو و درگزرتقویٰ اور للہیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ تقویٰ انسان کے خدا سے ایک تعلق کا نام ہے اور یہ تعلق اگر صحیح بنیادوں پر استوار ہو تو آدمی میں ایسی بصیرت پیدا کردیتا ہے کہ اس کے اندر ایک ہمت ، شفقت اور دانائی پیدا ہو جاتی ہے، جو اس کے اندر معاف کردینے کا حوصلہ پیدا کردیتی ہے۔
سورہ شوریٰ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’اور جو بڑی بڑی حق تلفیوں اور کھلی ہوئی بے حیائی سے بچتے ہیں اور وہ جب غصہ میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں‘‘یعنی یہ لوگ ایسے ہیں کہ بڑے جرائم سے بچتے ہیں،یعنی ان کا تقویٰ ان کو بڑی بڑی حق تلفیوں اور کھلی ہوئی بے حیائی سے روکتا ہےاور اسی طرح ان کا یہ تقویٰ غصے کے وقت ان کے ہاتھ اور زبان کو روکے رکھتا ہے۔
سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا:بے شک، اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا ہے درگزر کرنے کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:' درگزرکرنے کو لازم پکڑو اور نیکی کا حکم دواور جاہلوں سے اعراض کرو۔(سورۃالاعراف)جب کہ سورۂ آل عمران میں فرمایا گیا:' اہل ایمان غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے اچھے اخلاق والوں کو دوست رکھتا ہے۔ مزید فرمایا: اور تمہارا معاف کردینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے۔ (سورۃ البقرہ)
ایک مقام پرفرمایا گیا (ترجمہ)اگر تم کسی نیکی کو علانیہ کرو یا پوشیدہ یا کسی برائی سے درگزر کرو ،پس یقیناً اللہ تعالیٰ مکمل معاف کرنے والا اور مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔(سورۃ النساء) معاف کرنا اور درگزر کرنا چاہیے ،کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے، اللہ معاف فرمانے والا مہربان ہے۔
رسول اکرم ﷺنے لوگوں سے درگزر کرنے ، غصے کی حالت میں اپنے آپ پر کنٹرول رکھنے اور غصہ پی جانےکا حکم دیا ہے، کیونکہ ایسا کام جہاد بالنفس اور اعلیٰ عبادت میں داخل ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: کسی کو پچھاڑنے والے طاقت ور نہیں، بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر کنٹرول رکھے۔ دوسری حدیث میں فرمایا: سب سے زیادہ اجر والا گھونٹ اللہ تعالیٰ کے ہاں غصے کا گھونٹ ہے جسے بندہ اللہ کی رضا چاہتے ہوئے پی جاتا ہے۔
سنن ابوداؤد میں حدیث ہے:' جو شخص غصے کو طاقت رکھنے کے باوجود روک لیتا اور پی لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جس حور کو وہ چاہے پسند کرلے۔ 'آپﷺ کا فرمان ہے کہ: اللہ تعالیٰ صدقہ کے ذریعے مال میں کمی نہیں کرتا، درگزر کرنے کی وجہ سے بندے کی عزت میں ہی اضافہ فرماتا ہے اور جو کوئی اللہ کے لیے فروتنی (تواضع وانکساری) اختیار کرے گا ،اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا فرمائے گا۔
درگزر کرنا اور معاف کرنا درحقیقت بندگی کا شیوہ ہے،جب کہ لوگوں پر ظلم کرنا ،ناانصافی کرنا ایسے کام ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔لہٰذا صبر کرنا اور عفوودرگزر کا راستہ اپنانا باعث اجر و ثواب عمل اور اللہ کی رضا کا سبب ہے۔