سندھ ہائی کورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی۔
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست پر سندھ ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ بنیادی طور پر عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگائی گئی ہے، جوڈیشل کمیشن کے از سرِنو تشکیل سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ نے آئین کے آرٹیکل 239 کا جائزہ لیا ہے؟ آرٹیکل 239 کے مطابق آئین کی کوئی ترمیم پر کسی بھی عدالت میں سوال نہیں کیا جا سکتا، ہمارا دائرہ اختیار کیا ہے اس میں؟
وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے طے کیا آئینی ترمیم بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے کہا کہ ہمارے پاس سپریم کورٹ کے اختیارات نہیں ہیں، جو اختیارات ہائی کورٹ کے پاس ہیں وہی کرسکتے ہیں، راولپنڈی بار کے فیصلے میں کہاں لکھا ہے کمیشن میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی؟ عدلیہ کی آزادی پر قدغن کیسے ہے یہ بتائیں؟ دو فورمز نے کیسے عدلیہ کی آزادی متاثر کی ہے؟ پارلیمنٹ کو عوام نے منتخب کیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اسٹیک مشکوک ہے، الیکشن پٹیشن زیر سماعت ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسے معاملات میں ہمیشہ 184-3 کے تحت اختیار حاصل ہوتا ہے، ہمارے پاس 184-3 کے اختیارات نہیں ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں حکومتی افراد شامل ہیں۔
عدالت نے سوال کیا کہ کیا آپ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ بدنیت ہیں؟
وکیل نے کہا کہ ان لوگوں نے ججز کی تعیناتی کرنی ہے اور انہوں نے ہی ججز کی کارکردگی جانچنا ہے۔
عدالت نے اٹارنی پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔
سندھ ہائی کورٹ نے 2 ہفتوں میں اٹارنی پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر فریقین سے جواب طلب کر لیا۔
دوسری جانب 26 ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں سندھ ہائی کورٹ نے اہم قدم اٹھاتے ہوئے متوقع آئینی بینچ اور ریگولر بینچز کے لیے کیسز کی درجہ بندی کا عمل شروع کر دیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے رٹ برانچ کو فائلوں کی کلاسیفیکیشن کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔
ایڈیشنل رجسٹرار نے عدالتی عملے کو 21 ہزار کیسز کی درجہ بندی کرنے کی ہدایت کی ہے۔