روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن اگلے تین، چار روز میں امریکی عوام اس بات کا فیصلہ کر دیں گے کہ آئندہ چار سال کے لئے دنیا کا طاقت ور ترین شخص کون ہوگا۔ اس صدارتی دوڑ میں مجموعی طور پر چھ امیدوار میدان میں ہیں۔ گو کہ ہمیں میڈیا صرف ڈیموکریٹ کے امیدوار کمیلا ہیرس اور ریپبلکن کے ڈونلڈ ٹرمپ ہی کی کہانیاں اور پروپیگنڈہ دکھاتا ہے جس کی بنیادی وجہ تو دوسرے چاروں امیدوار لبرل یا لیفٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جس میں پروفیسر ڈاکٹر کارنل ویسٹ جو کہ پہلے امریکہ کے بابائے سوشلزم برنی سانڈر کی پارٹی کا ممبر تھا پھر گرین پارٹی میں چلا گیا وہاں دال نہ گلنے کے باعث اب آزاد امیدوار کے طور پر صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں شامل ہے۔ مس جل سٹین جو کہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہے گرین پارٹی کی طرف سے امیدوار برائے صدارت ہے ۔وہ پروگریسیو اور سوشلسٹ سیاست کی حامی ہے ۔ چیز آلیور لیفٹ لبرل امیدوار ہے ، البتہ پرانا ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ تھا۔ امریکہ کی طرف سے عراق پر جارحیت کا شدید مخالف تھا اس وقت اسرائیل کی جانب سے فلسطین پرجارحیت اور نسل کشی کے خلاف بڑی آواز ہے۔ اسی طرح کلاڈیا ڈی لا کروز سوشلسٹ ہے جوامریکی صدارتی انتخاب کی دورمیں نمایاں امیدوار ہے۔ یہ نیویارک میں پیپلزفورم کی بھی بانی ہے یہ پلیٹ فارم امریکہ میں ورکنگ کلاس اور پسی ہوئی کمیونٹیز کی آواز ہے۔ الیکٹرل کالج میں سپورٹ کے حساب سے اس وقت جو سروے اور تجزیے آرہے ہیں اس میں کمیلا ہیرس اور ٹرمپ تقریباً برابر ہی ہیں۔ تین پوائنٹ سے کمیلا آگے ہے لیکن اس وقت صرف تین دن پہلے یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ ان دونوں امیدواروں میں شہ باز کس کے سر پر بیٹھے گا۔ کمیلا ہیرس شروع میں تو پانچ پوائنٹ تک ٹرمپ سے آگے نکل گئی تھی لیکن پھر امیگریشن اور اسرائیل کی سپورٹ پر اس کے بیانے نے اس کی سپورٹ کے گراف کو نیچے گرایا ہے۔ اب اس نے اپنے بیانئے میں ذرا نرمی دکھانا شروع کی ہے ۔ امریکہ میں امیگریشن کو وہاں کے عوام معیشت سے بھی بڑا ایشو سمجھتے ہیں اور ٹرمپ کی لائن اس حوالے سے بہت سخت ہے لیکن وہ خصوصی طور پر مسلم امیگریشن کے خلاف ہے لیکن ٹرمپ اس لئے بھی امریکہ کے لئے خطرہ محسوس کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے اندر قانون اور آئین سے بڑھ کر خود پسندی ہے۔ لوگ اس کے گزشتہ دور اقتدار کے آخری ایام میں اس کی ریڈہل پر عوام کو مشتعل کرکے چڑھائی کرنے کے لئے اکسانے کو ابھی تک نہیں بھولے۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کے لوگ 5 نومبر کو ٹرمپ کے جیتنے کی صورت میں اسے اپنے لئے سکھ کی گھڑیوں کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے عمران خان کے ساتھ اتنے تعلقات ہیں (گو کہ دونوں زندگی میں صرف ایک بار ملے تھے) وہ جیتتے ہی پہلا کام عمران خان کی رہائی کے احکامات جاری کرکے کرے گا۔ یوں بھی جس طریقے سے ٹرمپ نے امریکہ میں سوسائٹی کو تقسیم کیا ہے اور یہ بیانیہ لوگوں کے دماغوں میں بٹھا دیا ہےکہ ٹرمپ ہے تو امریکہ ہے یہی بیانیہ پاکستان میں پی ٹی آئی والوں کا بھی ہے۔ اسی لئے پاکستان میں بھی عمران خان کے حوالے سے اس قسم کی تقسیم پائی جاتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ٹرمپ ہو سکتا ہے ایک آدھ بیان داغ دے لیکن یہ کہنا کہ وہ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کے بدلے میں عمران خان کی رہائی اور اقتدار چاہے گا۔ ایسا کرنا امریکی سیاسی اور انٹرنیشنل مفادات کے خلاف ہے کیونکہ دوسری طرف انڈیا کے ساتھ امریکہ کے علاقائی اور تجارتی مفادات پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ تو مسلمانوں کے سخت خلاف ہے تو پھر مدینے کی جیسی ریاست بنانے والا عمران خان کس طرح اس کاچہیتا ہو سکتا ہے۔ ادھر ایک اینٹی مسلم جذبات رکھنے والے کو عمران خان کیونکر اپنا مائی باپ بنائے گا۔ یہ سب تضادات ہیں جو پی ٹی آئی والوں میں پائے جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ حقیقی آزادی کا نعرہ لگانے والے ایک امریکی صدر کی مداخلت کو خوش آمدید کہنے کے لئے بے چین ہو رہے ہیں۔ خیر بات امریکی انتخابات کی ہے تو امریکہ میں بھی مجموعی طور پر 23 لاکھ مسلمان ہیں جو امریکی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے البتہ صرف مشی گن ایسی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ جڑی ہوئی ہے۔ دیگر چند ریاستوں میں ہے تو سہی لیکن بکھرے بکھرے سے ہیں اس لئے دو ایک ریاستوں میں صرف الیکشن کو تھوڑا متاثر کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ کہا جائے کہ مسلمان امریکی انتخابات کو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں تو حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ٹرمپ تو ویسے بھی امیگریشن کو اپنے بیانیے کا سب سے بڑا ایشو سمجھتا ہے۔ اس لئے دنیا تو ٹرمپ کو تقسیم کی علامت سمجھتی ہےجبکہ کمیلا ہیرس اسقاط حمل کے خلاف ہے اور وہ امیگریشن پر وقت کے ساتھ ساتھ نرم ہو چکی ہے۔ یوکرین جنگ کی سپورٹر ہے، فلسطین میں دو ریاستی حل کی بڑی وکیل ہے، جرائم کے خلاف امریکہ میں کمیلا ہیرس کی ہمیشہ سے سخت پالیسی رہی ہے۔ وہ سخت سزاؤں کی قائل ہے اب تین روز بعد ہم دیکھیں گے کہ امریکی کسے طاقت کی کنجی تھماتے ہیں۔