اسرائیلی فوج کی غزہ میں جارحیت کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے لوگ خوراک، پانی اور طبی امداد سے محروم ہوگئے ہیں، ایسے میں ایک بزرگ فلسطینی شہری کی اپنے پوتوں کو کی گئی دلخراش وصیت سامنے آئی ہے۔
عرب ٹی وی کے مطابق اسرائیلی فوج کی بمباری اور محاصرے نے غزہ میں بہت بڑا انسانی بحران پیدا کردیا ہے، اس صورتحال میں ایک فلسطینی عطیہ نامی بزرگ جو 1948ء کی نکبہ کے بعد جبالیہ کیمپ میں آباد ہوئے، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیں۔
انہوں نے اپنی زندگی میں دو نکبہ دیکھے۔ پہلے 1948 کا جب انہیں اپنے گاؤں سے بے دخل ہونا پڑا اور اب حالیہ اسرائیلی حملوں کے دوران ان کی زندگی مکمل محاصرے میں گزر گئی۔ وہ بار بار اپنے خاندان کے بچھڑے ہوئے افراد کی یاد میں کھوئے ہوئے نظر آتے تھے، بگڑتی صحت، کمزور ہوتی ہوئی جسمانی حالت اور خوراک و پانی کی عدم دستیابی نے انہیں موت کے مزید قریب کردیا تھا۔
اسرائیلی فوج کے محاصرے کی شدت کے باعث انہیں قبرستان میں دفن کرنا ممکن نہ تھا اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں ان کے گھر کے پچھلے حصے میں دفن کرنا پڑا۔
ان کے پوتے حمزہ صالح نے بتایا کہ میرے دادا عطیہ کی یہ وہ خواہش تھی جو انہوں نے اکتوبر 2023 میں غزہ پر ہونے والے حملے سے دہائیوں پہلے ظاہر کی تھی۔ انہیں پہلے سے اندازہ تھا کہ ان کی موت کے بعد انہیں دفنانا مشکل ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 سے جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر نہ ختم ہونے والے حملے شروع کیے تو میرے دادا کی صحت بگڑنے لگی۔ ہر بار جب اسرائیل نے شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں زمینی حملے کیے تو ان کی حالت مزید خراب ہوتی گئی، ہمارے پاس پینے کا پانی ختم ہو گیا تھا اور کھانے کےلیے صرف چند لقمے تھے۔ وہ مسلسل 10دن تک بیت الخلا نہیں جا سکے، کیونکہ کمزوری کی وجہ سے وہ حرکت نہیں کر سکتے تھے، جس سے ان کا نظام ہاضمہ تباہ ہو گیا۔
7 اکتوبر 2024 کو جبالیہ میں اسرائیلی فوج کی تیسری زمینی کارروائی کے آغاز پر میرے دادا نے آخری سانس لی۔
حمزہ صالح نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں اب تک 43,000 سے زائد جانیں لے لی ہیں اور ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ زمین میں دفنانے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔
خیال رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی فوج نے 43 ہزار 314 لوگوں کو شہید کردیا ہے جبکہ 1 لاکھ 2 ہزار 19 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔