وہ جنگ کی حالت میں پیدا ہوا اور حالت جنگ میں ہی شہید ہوگیا، اپنی قوم کی آزادی اور خود مختاری کیلئے لڑکپن میں ہی مسلح جدوجہد شروع کی اور آخری سانس تک دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے بلآخر موت کو گلے لگا لیا۔
شہید یحییٰ سنوار کو تاریخ میں ایک نڈر رہنما اور بہادر سپاہی کے طور پر جانا جائے گا، کیونکہ اپنی قوم کی خاطر اس نے پیچھے رہنے کی بجائے اگلے مورچوں پر دشمن سے لڑنے کو ترجیح دی تھی، وہ تنہا دنیا کی طاقتور فوج پر حاوی رہے۔
صہیونی فورسز سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے یحییٰ سنوار 1962 میں غزہ کے ایک غریب گھر میں پیدا ہوئے، وہ جب 5 سال کے تھے تو 1967 کی اسرائیل اور عرب جنگ چھڑ گئی، جس میں فلسطینیوں کو اپنے گھر بار سے محروم ہونا پڑا۔ اس دوران یحییٰ سنوار غزہ میں بنے ایک پناہ گزین کیمپ میں رہے۔
وہ 19 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ جیل گئے اور تقریباً چوتھائی صدی اسرائیل میں عمر قید کی سزا کاٹی، ان کو 1988 میں اسرائیلی فوجیوں اور مشتبہ فلسطینی مخبروں کے قتل کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جیل میں انہوں نے حماس کی صفوں میں ترقی کی، عبرانی زبان سیکھی اور اپنے اسرائیلی جیلروں کا مطالعہ کیا اور حماس کے قیدی جنگجوؤں میں ایک اہم شخصیت بن گئے۔
اسیری میں بھی سنوار کو فلسطینیوں کے دکھوں اور مصائب و آلام ہی کی فکر رہی اور انہوں نے ان تمام مشکلات کو ایک ناول ’الشوک و القرنفل‘ (کانٹے اور پھول) کی شکل میں ڈھال دیا۔
وہ اسیری کے دوران بھی حماس کے دیگر افراد کی تربیت پر کام کرتے رہے، اس دوران انہوں نے جیل میں نظم و ضبط کے کچھ اصول بھی بنائے تھے، انہوں نے جیل کو عبادت گاہ اور درس گاہ میں تبدیل کردیا تھا۔
اسرائیلی فوجی جیلاد شالت کو حماس نے اغوا کے بعد 5 سال تک یرغمال رکھا، جس کے بدلے یحییٰ سنوار کو سال 2011 میں ایک معاہدے کے بعد رہا کردیا گیا، قیدیوں کے اس تبادلے میں 1028 فلسطینی اور اسرائیلی عرب قیدی رہا ہوئے تھے۔
انہوں نے 1980 کی دہائی میں حماس میں شمولیت اختیار کی اور پھر تنظیم میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا، سال 2013 میں وہ غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن منتخب ہوئے جس کے بعد 2017 میں انھیں اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔
31 جولائی 2024 کو ایران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد انہیں حماس کا سربراہ بنایا گیا اور اپنی شہادت تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔
یحییٰ سنوار شیخ احمد یاسین شہید، ڈاکٹر رنتیسی شہید، خالد مشعل اور پھر اسماعیل ہنیہ شہید کے بعد حماس کے پانچویں سربراہ تھے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے یحییٰ سنوار کو ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا اور ان کی تلاش شروع کردی۔
اسرائیل یحییٰ سنوار کی شہادت سے قبل مسلسل پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ وہ غزہ کی سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں، انہوں نے اسرائیلی یرغمالیوں کو ڈھال بنایا ہوا ہے۔ مگر اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا، کیونکہ وہ بہادری کے ساتھ اسرائیلی فوج سے لڑتے ہوئے میدان جنگ میں شہید ہوئے۔
وہ جنوبی غزہ میں رفح علاقہ کی ایک عمارت میں موجود تھے جس پر اسرائیلی فوج نے ٹینکوں سے گولے برسا کر اسے مکمل تباہ کردیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے علاقے کو ڈرون کی مدد سے اسکین کیا تھا، جس میں شہادت سے قبل زخمی یحییٰ سنوار کو عمارت کے اندر جاتے اور باہر آتے دیکھا گیا، جس کے بعد اسرائیلی بم باری کے نتیجے میں یحییٰ سنوار زخمی ہوئے، اس کے باوجود وہ صہیونی فوج کا جواں مردی سے مقابلہ کرتے رہے اور جام شہادت نوش کیا۔
یحییٰ سنوار کی شہادت پر فلسطینی قومی تحریک کے سیکریٹری جنرل مصطفیٰ برغوثی نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم "فتح کی تصویر" چاہتا تھا، مگر یحییٰ سنوار نے اپنی زندگی کے آخری لمحے میں دنیا کو نیتن یاہو کی ناکامی کی تصویر دی۔