پاکستان کے کامیاب ترین پیرا ایتھلیٹ حیدر علی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پیرالمپکس کو اولمپکس کے برابر ہی اہمیت دی جاتی ہے، پاکستان کیلئے پیرالمپکس میں چار میڈلز جیتے لیکن وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ مستحق ہیں۔ ارشد ندیم کے تو گھر جاکر انعامات دیے گئے تھے، مجھے دفتر بلاکر ہی دے دیں۔
حیدر علی نے کہا کہ ارشد ندیم کو پالیسی سے بڑھ کر انعامات ملے اور مجھے پالیسی کے مطابق بھی نہیں، ارشد کو جو دیا اس کا تیسرا حصہ بھی مل جائے تو خوشی ہوگی۔
پاکستان کے کامیاب ترین پیرا ایتھلیٹ حیدر علی نے جیو نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اپنی کامیابیوں، مشکلات اور مستقبل کی امیدوں کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی کامیابیوں کے پیچھے والدین اور فیملی کی مسلسل حمایت شامل ہے، جنہوں نے ہر قدم پر ساتھ دیا۔ پاکستان میں رہ کر عالمی سطح پر مقابلہ کرنا آسان نہیں، بلکہ اس کےلیے سخت محنت اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔
حیدر علی نے بتایا کہ وہ واحد پاکستانی ایتھلیٹ ہیں جنہوں نے پانچ پیرا لمپکس میں کوالیفائی کیا اور ان میں سے چار میں میڈلز جیتے۔ ان کے میڈلز میں ایک گولڈ (ٹوکیو)، ایک سلور (بیجنگ) اور دو برانز (ریو اور پیرس) شامل ہیں۔ انہوں نے پیرا لمپکس، پیرا ایشین گیمز اور ورلڈ چیمپئن شپ سمیت ہر سطح پر پاکستان کےلیے میڈلز جیتے ہیں اور اب تک 19 میڈلز حاصل کرچکے ہیں، جس میں 9 گولڈ، 4 سلور، اور 6 برانز شامل ہیں۔
حیدر علی نے بتایا کہ میڈلز جیتنے کےلیے محنت کے ساتھ ساتھ وسائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر پاکستان میں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ واپڈا کے ملازم ہونے کے ناطے جو تنخواہ ملتی ہے، اس میں ٹریننگ کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس نہ تو مناسب اسپانسرشپ ہے اور نہ ہی حکومتی سپورٹ، جس کے باعث انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حیدر علی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عالمی سطح پر پیرا اولمپکس کو اولمپکس کے برابر اہمیت دی جاتی ہے اور دیگر ممالک اپنے پیرا ایتھلیٹس کو اولمپکس ایتھلیٹس کے برابر انعامات دیتے ہیں مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ ریو پیرالمپکس میں برانز میڈل جیت کر آئے تو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے انہیں انعام سے نوازا اور یہ واحد موقع تھا جب کسی وزیر اعظم نے انہیں بلایا مگر پیرس میں برانز میڈل جیتنے کے بعد وعدے کے باوجود ابھی تک انہیں کسی نے نہیں پوچھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پیرس سے واپس آئے تو اس وقت وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود نے اپنے دفتر بلاکر وعدہ کیا تھا کہ جلد وزیر اعظم سے ملاقات کروائیں گے اور انعام دلوائیں گے لیکن اس بات کو اب دو ماہ ہوچکے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
حیدر علی نے کہا کہ انہیں دکھ ہوتا ہے کہ ان کی بےمثال کامیابیوں کے باوجود انہیں وہ عزت نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے پلیئرز میڈل جیت کر آتے ہیں تو اگلے دن ان کے وزیر اعظم انہیں انعامات سے نوازتے ہیں، مگر پاکستان میں ایسا نہیں۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ جب وہ بیجنگ میں ورلڈ ریکارڈ توڑ چکے تھے تو کئی ممالک نے انہیں اپنی طرف سے کھیلنے کی پیشکش کی مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے ملک کےلیے کھیلنے کو ترجیح دی۔
حیدر علی نے بتایا کہ انہیں ارشد ندیم کےلیے کیے گئے شاندار استقبال کو دیکھ کر خوشی ہوئی کیونکہ اسی گراؤنڈ پر انہوں نے بھی میڈل جیتا تھا۔ دل میں ایک خواہش تھی کہ شاید میرا بھی استقبال اسی طرح ہوگا۔
حیدر علی نے کہا کہ وہ ارشد ندیم کے انعامات سے خوش ہیں مگر انہیں اپنے حق کے مطابق پذیرائی نہیں ملی، ارشد ندیم کے تو گھر جاکر انعامات دیے گئے تھے، مجھے دفتر بلاکر ہی دے دیں۔