فروری دوہزار چوبیس کے الیکشن سے قبل لاہورمیں ن لیگ کے پارلیمانی بورڈ کا اجلاس جاری تھا، میاں نواز شریف، شہباز شریف سمیت کئی بڑے پارٹی رہنما پارٹی ٹکٹ کے خواہش مند افراد سے انٹرویو کرنے والوں میں شامل تھے،جبکہ ان کے سامنے گزشتہ کئی بار کی طرح اس بار بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سید سیدال خان ایک بار پھر قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے حصول کے لیے اپنی قسمت آزمائی کے لیے موجود تھے، ایک بار پھر انٹرویو ہوا، سیدال خان نے ایک بار پھر پارٹی اور اپنے قائد میاں نواز شریف کے لیے دی جانے والی اپنی قربانیوں کی طویل فہرست پیش کی، جس کا قائدین نے احترام بھی کیا، لیکن سیدال خان ایک بار پھر ٹکٹ حاصل کرنے کی شرائط پر پورا نہیں اتر سکے اور ان کے حلقے سے ٹکٹ پارٹی کے ایک اور بڑے نام کو دے دیا گیا۔ سیدال خان مسلم لیگ ن بلوچستان کے ان چند وفادار کارکنوں میں سے تھے جنھوں نے1995 میں جب سے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی اس وقت سے آج تک کبھی پارٹی سے بے وفائی نہیں کی، مشرف دور میں جب پنجاب میں ن لیگ کے پاس کارکن نہ ہونے کے برابر تھے اس وقت بھی انھوں نے پنجاب میں پارٹی کا نام بلند کرنے کے لیے جدوجہد میں حصہ لیا، سیدال خان نے کوئٹہ سے عملی سیاست کا آغاز کیا، وہ 1996سے لے کر1999تک مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری رہے جبکہ 1999سے 2002تک مسلم لیگ یوتھ ونگ کے صدر رہے، اس زمانے میں بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے لیے کام کرنا بہت مشکل تھا جس کے لیے ان پر خطرناک مقدمے قائم ہوئے، انھیں گرفتار بھی کیا گیا ، زخمی بھی کیا گیا، لالچ بھی دیا گیا لیکن کبھی انھوں نے ن لیگ اور میاں نواز شریف سے اپنی وفاداری پر حرف نہیں آنے دیا، ہر طرح کا دبائو برداشت کیا، جیلیں کاٹیں لیکن کبھی نواز شریف سے غداری کا نہ سوچا، ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے پارٹی نے انھیں 2013سے 2018تک بلوچستان کا سینئر نائب صدر منتخب کیا جبکہ 2018سے 2020تک وہ پارٹی کے جنرل سیکریٹری بھی رہے، عمران خان کے دور میں جب ن لیگ کے اکثر بڑے نام پارٹی کو چھوڑ گئے لیکن وہ ہر طرح سے ڈٹے رہے۔ اور پھر جب عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ن لیگ کے لیے حالات بہتر ہوئے اور میاں نواز شریف سمیت اعلیٰ قیادت لندن سے واپس پاکستان پہنچی تو 2024کے انتخابات سے قبل میاں نواز شریف کوئٹہ تشریف لائے تو وہ تمام بڑے نام جو مشکل وقت میں ان کو چھوڑ کر مخالف پارٹیوں میں چلے گئے تھےوہ سب راتوں رات ن لیگ میں واپس شامل ہو گئے اور ان سب کو ہی پارٹی نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ بھی دے دیئے اور حیرت انگیز طور پر سیدال خان جو مسلسل پارٹی کے ساتھ کھڑے تھے انھیں نہ صوبائی اور نہ ہی قومی اسمبلی کا ٹکٹ مل سکا جس سےان کا دل ٹوٹ گیا، اس موقع پر انھیں کئی جماعتوں نے ن لیگ چھوڑ کر اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی لیکن ان کا جواب تھا کہ پارٹی سے اختلاف پارٹی میں رہ کربھی کیا جاسکتا ہے اسے چھوڑ کر اپنے کردار پر داغ لگا نا قبول نہیں ہے، 2024میں ن لیگ کامیاب ہوئی اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بھی قائم کر لی، سیدال خان مایوسی کے باوجود ایک بار پھر پارٹی کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ اسی دوران سینیٹ کے انتخابات کا اعلان ہوا جہاں بلوچستان سے ن لیگ کے حصے میں دو سیٹیں آرہی تھیں اور ایک بار پھر وہ اپنی قسمت آزمائی کے لیے میاں نواز شریف کے پاس پہنچے اور اس بار میاں نواز شریف نے اپنے اس سچے اور وفادار کارکن کو مایوس نہیں کیا انھیں بلوچستان سے سینیٹ کا ٹکٹ دیا گیا او رکامیاب بھی کرایا گیا، اسی دوران ڈپٹی چیئر مین سینیٹ کا عہدہ خالی ہوا تو میاں نواز شریف نے ایک بار پھر اس عہدے کے لیے سیدال خان کا نام پیش کیا، جس کی پارٹی کے اندر سخت مخالفت بھی کی گئی اور ذرائع کے مطابق ڈپٹی چیئرمین کی سیٹ کے لیے ن لیگ کی قیادت کو مبینہ طور پر ڈیڑھ ارب روپے کی پیشکش بھی کی گئی لیکن میاں نواز شریف اور شہباز شریف اپنے وفادار کارکن اور رہنما سیدال خان کو ہی سینیٹ کا ڈپٹی چیئرمین بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے جس میں سینیٹر پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق اور اعظم نذیر تارڑ کی حمایت بھی شامل تھی، یوں انیس سو پچانوے سے پارٹی کے لیے خدمات انجام دینے والا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والا سیاسی کارکن آج ملک کے چند اہم ترین عہدوں میں سے ایک ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے طور پر موجود ہے، یوں سیدال خان کا سیاسی سفر ہر مایوس سیاسی کارکن کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔