آج کل خناق کی بیماری دوبارہ دیکھنے میں آ رہی ہے اور چھوٹے بچّے اِس کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں، یہ مرض عام طور پر ناک اور گلے کی نالیوں کو متاثر کرتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اِس مرض میں اموات کی شرح تقریباً 30 فی صد ہے۔
خنّاق دراصل سائنو بیکٹیریا سے لاحق ہونے والی ایک بیماری ہے۔
سائنو بیکٹیریا خناق کا انفیکشن ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ ٹشوز کو نقصان پہنچتا ہے، جسے ’Corynebacterium‘ کہتے ہیں اور اس کی کئی اقسام ہیں، تاہم اِس کی دو اقسام ’Corynebacterium Diphtheriae‘ اور ’Corynebacterium Ulcerans‘ انسانوں میں بیماری کی وجہ ہیں۔
اس بیماری میں مبتلا افراد کے جسم میں زہریلے مادے خارج ہوتے ہیں جو خون کے دھاروں میں شامل ہوتے ہیں، یہ انسان سے انسان میں پھیلنے والی بیماری ہے، خناق ایک انسان سے دوسرے انسان میں سانس کے ذریعے پہنچتی ہے۔
اِس مرض میں مبتلا شخص کھانستا یا چھینکتا ہے یا پھر اُس کی سانس اور ناک کی رطوبت کسی دوسرے انسان تک ہوا کے ذریعے پہنچتی ہے تو دوسرا شخص بھی اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے، اسے’Droplets Infection‘ کہتے ہیں۔
اگر کوئی شخص خناق میں مبتلا ہے تو علاج کے باوجود یہ مہلک ہو سکتا ہے۔
اس کی علامات میں گلے میں خراش ہونا، ٹانسلز اور گلے کی دیوار پر اور تالو پر سفیدی مائل دھبّے، غدود میں سوجن اور ان کا بڑھ جانا، سانس لینے میں دشواری، بخار ہونا یا سردی لگنا، تھکاوٹ محسوس کرنا، ناک بہنا، بھوک میں کمی اور بلغم کا اخراج بعض اوقات خونی بلغم کا اخراج شامل ہیں۔
جب کوئی شخص اس انفیکشن کی لپیٹ میں آتا ہے تو 2 سے 5 دن میں اِس بیماری کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں، مگر اس کے پھیلنے کا دورانیہ (Incubation period ) 1 سے 10 دن تک ہوتا ہے۔
جب ایک مرتبہ یہ بیماری انسانی جسم میں داخل ہو جائے، تو اس کے بیکٹیریا 2 قسم کے زہریلے مادّے خارج کرتے ہیں، جنہیں Toxin- A اور Toxin- B کہتے ہیں۔
ٹاکسن بی انسانی جسم کے ساتھ چپک کر ٹاکسن اے کو جسم کے خلیوں میں داخل کرنے میں مدد کرتا ہے اور یہ ٹاکسن ہی اِس بیماری کی اصل وجہ ہے۔
یہ زہریلے مادّے بہت تیزی سے اپنا کام کرتے ہیں، جب کہ انسانی جسم جواباً ان سے لڑنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے، اِس جسمانی ردِ عمل کو ’Immune system‘ کہا جاتا ہے اور یہی وہ مدافعتی نظام ہے، جو ویکسین کے ذریعے اپنا کام کرتا ہے اور فوری طور پر بیماری سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
جب Corynebacterium Diphtheriae کسی بیمار مریض کی کھانسی یا چھینک کے ذریعے کسی بچّے کے جسم میں داخل ہوتا ہے، تو اُسے قدرتی مدافعتی نظام کی وجہ سے بخار چڑھ جاتا ہے، جس سے بچّے کی طبیعت کی خرابی کا پتہ چلتا ہے۔
یہ بیماری اگر شدید نہ ہو، تو عام طور پر 7 سے 10 دن میں ختم ہو جاتی ہے، لیکن شدید بیماری تقریباً 6 ہفتے تک اپنے اثرات برقرار رکھتی ہے، جیسا کہ Myocarditis وغیرہ۔
اگر کسی شخص میں خناق کی درج بالا علامات محسوس کی جائیں تو فوری طور پر ماہر ڈاکڑوں سے رابطہ کرنا چاہیے، اگر بر وقت اس مرض کی تشخیص اور علاج نہ ہو تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
اگر مرض کی تشخیص ہو چکی ہے تو ڈاکٹر کے علاج کے ساتھ ساتھ مکمل صحت یاب ہونے کے لیے بہت زیادہ آرام کی ضرورت ہے، خناق کے مریضوں کو کسی بھی جسمانی مشقت سے گریز کرنا چاہیے۔
خناق کی صورت میں غذا نگلنے میں دشورای ہو سکتی ہے، اس لیے نرم غذاؤں کا استعمال کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ وٹامنز سے بھرپور غذا کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔
انفیکشن کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے لیے بار بار ہاتھ دھونا اور نیم گرم پانی کے غرارے کرنا ضروری ہیں۔
خناق ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے جو بہت سنگین ہو سکتا ہے، لیکن ویکسینیشن کے ذریعے اس کی روک تھام ممکن ہے۔
خنّاق سے بچاؤ کے لیے جو ویکسینز لگائی جاتی ہیں، اُنہیں ’Dtap‘کہتے ہیں۔
اس ضمن میں نومولود بچے کو 6 سے 8 ہفتے پر پہلی، 1 مہینے بعد دوسری اور 5، 6 ماہ کی عُمر میں تیسری ویکسین دینا EPI پروگرام کا حصّہ ہے۔
ابتدائی 3 ڈوزز کے بعد 15 سے 18 مہینے میں چوتھی ڈوز لینی ہوتی ہے جو عموماً نجی طور پر لگوانی ہوتی ہے، پھر 4 سے 5 سال کی عُمر میں پانچویں ڈوز اور 10 سال بعد چھٹی ڈوز لی جاتی ہے۔
گویا مکمل ویکسی نیشن پروگرام 6 ڈوزز پر مشتمل ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اکثر افراد عموماً ابتدائی 3 ڈوزز کے بعد ویکسینیشن کے لیے نہیں جاتے اور شاید ڈاکٹرز بھی یاد دِلانا بھول جاتے ہیں۔
یہ مرض دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عام نہیں ہے، لیکن کوئی شخص جس کو ویکسین نہیں لگائی گئی ہے اگر وہ کسی ایسے علاقے کا سفر کرتا ہے تو یہ مرض اس کے ذریعے پھیل سکتا ہے، اس لیے بر وقت علاج ممکن ہے۔