بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) میں سوار خلاء میں پھنسے خلاء باز ایک دن میں طلوع اور غروبِ آفتاب کے 16 سے زائد مناظر دیکھتے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق خلاء باز 58 سالہ سنیتا ولیمز کا کہنا ہے کہ میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ ہر روز 16 طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے مناظر اس تیز رفتار خلائی شٹل سے دیکھ رہی ہوں، مجھے خلاء میں آنے کا شوق تھا جس کے لیے بے شک میں نے بہت محنت کی ہے۔
خیال رہے کہ بوئنگ اسٹار لائنز خلائی جہاز کی واپسی کے شیڈول میں تاخیر کی وجہ سے خلاء بازوں کا یہ سفر طے شدہ شیڈول سے بڑھ گیا ہے، اب ممکنہ طور پر ان کی واپسی 2025ء کے فروری تک ہو سکے گی۔
اس اضافی وقت کو دونوں خلاء باز اہم تحقیق میں حصہ لینے اور منفرد خلائی تجربات و دریافت کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق زمین تقریباً 28000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے مدار میں گھوم رہی ہے، آئی ایس ایس مدار میں اپنا ایک چکر تقریباً 90 منٹ میں مکمل کرتا ہے۔
خلائی جہاز کا سیارے کے گرد اس تیز رفتاری سے سفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خلاء باز تقریباً ہر 45 منٹ میں طلوعِ آفتاب یا غروب آفتاب کا مشاہدہ کر رہے ہیں یعنی جس منظر کا مشاہدہ عام افراد زمین پر رہ کر دن میں 2 بار کرتے ہیں، خلاء باز خلائی جہاز میں یہی مشاہدہ بار بار کرتے ہیں، ہر بار ان کا خلائی جہاز زمین کے تاریک پہلو سے سورج کی روشنی کی طرف اور پھر دوبارہ تاریکی کی طرف واپس چلا جاتا ہے۔
زمین پر زندگی کے برعکس جہاں 1 دن تقریباً 12 گھنٹے روشنی اور 12 گھنٹے اندھیرے پر مشتمل ہوتا ہے، خلاء میں 1 دن 45 منٹ کی روشنی کے بعد 45 منٹ کی تاریکی کا ہوتا ہے، جس کا تجربہ اس وقت خلاء میں پھنسے سائنسداں کر رہے ہیں۔
اس تیز رفتار چکر کے باعث خلاء بازوں کو دن اور رات کا مشاہدہ ایک دن میں 16 بار کرنا پڑتا ہے۔