یہ بات جاننے کیلئے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں کہ ہم اس وقت تک ترقی یافتہ ممالک کی گرد بھی نہیں پا سکتے جب تک ہم عصری علوم سے آشنا نہیں ہوتے اور ہمارے اندر کوئی نظریاتی انقلاب نہیں آتا ہمارے روبہ زوال ہونے کی وجہ جدید نظام فکر کا فقدان اور غیر ترقی یافتہ سوچ ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان حالات میں ہم بیدار ہو جائیںگے ،عصری علوم حاصل کر لیں گے، سائنس میں نام پیدا کرلیں گے تو ایسا نہیں ہے ،ہم تو طاقت’’ ہر قیمت پر ضرور حاصل کرو‘‘ اور جس وقت جس نعرے میں فائدہ ہو اس کے ہمنوا بن جاؤ اور حقیقتاً جو لوگ نیکی، سچائی، حسن کے قائل ہوں ان کا منہ کالا کرتے چلے جاؤ اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے جاؤ کہ’’کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے‘‘اقبال نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ ’’کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور‘‘ اب اسکا کیا کیا جائے کہ یہاں ہر کرگس خود کو شاہین ثابت کرنے میں مصروف ہے اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جذبے کا مظاہرہ اور شوق کا ثبوت سب سے مشکل کام ہے، یہ جو اہل نقد و نظر فرماتے ہیں کہ تعلیم کا بنیادی مقصد ہوتا ہے معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کرنا۔ اور یہ کام خصوصیت سے سماجی علوم کے ذریعے ہو پاتا ہے کہ جو سیاسی سماجی اور ثقافتی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اور پھر ذہنی طور پر معاشرے کو باشعور بناتے ہیں تاکہ ان مسائل کو سمجھا جا سکے اور ان پر قابو پایا جا سکے پاکستان میں اس وقت علوم انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جن سماجی مسائل سے دوچار ہے ان کی نشاندہی تک نہیں ہو پا رہی اور کسی مسئلے کا حل اس وقت ممکن ہے جب اس کو پوری طرح سے سمجھا جائے۔ تو آئیے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتوں سے ہم ان مسائل کی نشاندہی کی کوشش کریں اور اپنے ہم وطنوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نگاہ ڈالیں کسی نے پوچھا بارش کا فائدہ کیا ہے؟ جواب دیا ’’میرا کھیت خراب ہوتا ہے‘‘اس نے پھر پوچھا ’’بارش کا کیا نقصان ہے؟‘‘جواب دیا ’’میرے بھائی کا کھیت سیراب ہوتا ہے‘‘۔ جوتے بیچنے والی دو کمپنیوں نے اپنے اپنے سیلز مین ایک گاؤں میں بھیجے کہ بھائی دیکھ کے آؤ کہ وہاں جوتے بیچنے کے کیا مواقع ہیں کتنی کھپت ہے؟ جب دونوں سیلز مین وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ گاؤں والے جوتے استعمال ہی نہیں کرتے سب ننگے پیر ہی رہتے ہیں۔ایک سیلز مین نے اپنی کمپنی کو تار دیا کہ یہاں تو جوتے پہننے کا رواج ہی نہیں ہے لہٰذا جوتے بیچنے کے مواقع نہیں ہیں دوسرے سیلز مین نے ایکسپریس تار بھیجا ’’جوتے بیچنے کے زبردست مواقع ہیں کیونکہ یہاں کسی کے پاس جوتا نہیں‘‘ جرمن سائنس دان ’’البرٹ آئن اسٹائن لکھتا ہے یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں کہ جدید نظام تعلیم نے ابھی تک جوان ذہنوں کے مقدس تجسس اور تحقیق کے جذبے کا پوری طرح گلا نہیں گھونٹا یہ سوچنا بہت ہی غضبناک غلطی ہے کہ نظارے کے لطف اور تلاش کے شوق کو سخت قوانین اور بھاری جرمانوں اور سزاؤں کے ذریعے ترقی دی جا سکتی ہے تعلیم تو حیرت اور تجسس کے خلا میں ایک مسلسل اور پر لطف شوقیہ پرواز کا نام ہے۔ مشکل یہ ہے کہ سیانے کافی سیانے نہیں اور احمق کافی احمق نہیں ورنہ علم کے پھیلنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔علم حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنی جہالت کو قابو میں رکھو۔مصلحت علم کی سب سے بڑی دشمن ہے اکثر علم کی راہ میں آن کھڑی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ احمق کون ہوگا جو اپنے علم کو اپنی ضرورت کیلئے کافی سمجھتا ہے۔’’ہر کسی کو علم کی راہ پر چلنے دو صرف یہ خیال رکھو کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے اوپر جا رہا ہے یا پیچھے کی طرف نہیں آ رہا‘‘۔’’جن لوگوں کے پاس ایمان کے علاوہ کچھ نہیں ہے ان کے ایمان کو چھیڑنا بہت خطرناک ہوتا ہے‘‘۔’’المیہ لا علمی نہیں ہے لاعلمی سے سمجھوتا ہے‘‘۔’’ ہر انسان ایک کتاب ہے بشرطیکہ آپ کو اس کی زبان آتی ہو‘‘۔’’ علم حاصل کرنا ہے تو نظریات کے بجائے واقعات کا جائزہ لیں‘‘۔’’ انسان واحد جانور ہے جو روتا ہے اور ہنستا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے‘‘۔ اب آخر میں ایک احمقانہ سوال کا عارفانہ جواب سنیے: ایک احمق نے ایک عارف سے پوچھا ’’اگر تم جنگل میں جا رہے ہو اور تمہارے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہ ہو اور اچانک سامنے سے شیر آ جائے تو تم کیا کرو گے؟‘‘۔’’عارف نے جواب دیا میں نے کیا کرنا ہے جو کچھ کرنا ہےشیرنے کرنا ہے‘‘۔سو دوستو ! ملک عزیز کے تعلیمی، ثقافتی، ادبی، سیاسی اور سماجی حالات اس نج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب جو کچھ کرنا ہے وہ شیر نے کرنا ہے۔
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا