روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن اس دفعہ امریکہ کے انتخابات میںڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے پاکستانیوں میں اتنی دلچسپی دیکھنے کو ملی کہ لگتا تھا کہ ٹرمپ کے حق میں جلسے جلوس ہی نہ شروع ہو جائیں۔ انتخابی مہم سے لیکر ووٹنگ ڈے تک اور پھر نتائج آنے تک پھر نتائج کے بعد کے تبصروں میں لگتا ہے کہ ٹرمپ نے ریپبلکن چھوڑ کر شاید پی ٹی آئی جوائن کر لی ہے۔ یوں لگتا ہے ٹرمپ نے الیکشن نہیں ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔ اتنا چالاک اور بھولا سیاسی ورکر دنیا میں نہیں ملے گا۔ اے آئی پر ایسی ٹرمپ کی ویڈیوز بنا کے چلائی جا رہی ہیں کہ اگر انکل ٹرمپ کو پتہ چل جائے تو وہ فوراً ایلون مسک کو کہے گا کہ جتنے ملین ڈالر سوئنگ ریاستوں میں لوگوں کو خوش کرنے پر خرچ کئے ہیں۔ چلو ایک دو ملین ڈالر ان پی ٹی آئی والوں کو بھی دے دو۔ بے چارے میری جیت کی خوشی میں پھٹے جا رہے ہیں، ان بے چاروں کو اصل میں میرا پتہ نہیں ہے بلکہ مجھے تو خود نہیں پتہ کہ میں کیا کرنے والا ہوں۔ خیر یہ تو ہو گئی ہلکی پھلکی بات۔ ہم جب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو وہ زمانہ تھا جب امریکہ کو نہ صرف سامراج کہتے تھے بلکہ امریکہ سے دوستی رکھنے والے کو غدار تک کہہ جاتے تھے۔ اس وقت دنیا روس اور امریکہ کے دو بڑے کیمپوں میں تقسیم تھی۔ اکثر مذہبی جماعتیں اور فوج امریکہ کا دم بھرتی تھی اور سوشلزم کا نام لینے والوں کو روسی ایجنٹ کہا جاتا تھا۔ امریکہ کا وہ کردار تو اب تک جاری ہے گو کہ اب امریکہ کو گرتی ہوئی دیوار کہا جاتا ہے۔ البتہ ہمیں پتہ ہے کہ امریکہ جیسے دیو ملک کو گرتے گرتے بھی ہماری کئی نسلیں گزر جائیں گی۔ ویسے میں امریکہ کو گرانا نہیں چاہتا، ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ اب آپ سوچیں گے کہ میں امریکہ کو کیسے ٹھیک کر سکتا ہوں۔ بھئی اگر ہم اپنی پالیسیاں اور سیاست ٹھیک کرلیں تو امریکہ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا یا اسے ہونا پڑے گا۔ یہ ہمارے اندر ہی ایسے عناصر ہوتے ہیں جو طاقتور کے ساتھ چلنے کی بجائے اسے سر پر بٹھا لیتے ہیں۔ خیر اب ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد امریکہ کی ترجیحات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بہرحال پاکستان تو فی الحال کہیں فٹ نہیں ہوتا اور پھر امریکہ کو اس خطے میں ایسے کون سے مفادات ہوں گے، جو وہ شہباز شریف کی حکومت سے پورے نہیں کروا سکتے۔ ویسے تو جمہوریت پسند امریکہ غریب ممالک میں بات صرف انہی سے کرتا ہے جو طاقت کا اصل منبع ہوتے ہیں۔ پاکستان میں طاقت کا اصل منبع نہ تو سویلین حکومت ہے نہ ہی عوام نہ ہی کوئی اور ادارہ سوائے آرمی چیف کے۔ جنرل عاصم منیر کو ٹرمپ یہ تو کہہ نہیں سکتا کہ تم گھر جائو اور کسی عمران زادہ کو اپنی کرسی پر بٹھا دو۔ یہ تو امریکہ میں بیٹھی پاکستانی مسلمان کمیونٹی نے، جن میں اکثریت عمران زدگان کی ہے، ٹرمپ کے الیکشن مہم کے سرکردہ لوگوں سے مل کر انہیں نہ صرف بھاری چندے دیئے بلکہ اس کے عوض عمران خان کے لئے جیتنے کی صورت میں سپورٹ مانگی۔ اب ظاہر ہے کہ الیکشن مہم کے دوران اگر آپ کے ووٹر کچھ کہیں گے اور مانگیں گے تو اس موقع پر لیڈر کا کام انکار کرنا نہیں ہوتا۔ اصل میں تو یہ کہانی یہاں تک ہی ہے، باقی ٹرمپ کیسے جیت گیا یہ معجزہ کیسے ہوا کیونکہ ووٹنگ سے چند روز پہلے تک تو کملا ہیرس ٹرمپ سے کئی پوائنٹ آگے جا رہی تھی لیکن ڈیموکریٹ کی حکومت یعنی بائیڈن کے زمانے میں امریکہ کی معاشی حالت خاصی خراب ہوئی ہے۔ امریکہ کئی ٹریلین ڈالر کا مزید مقروض ہو گیا ہے اور دوسری طرف امیگریشن کے حوالے سے جو بڑی تعداد براستہ میکسیکو سے امریکہ میں داخل ہو رہی تھی، ٹرمپ نے ان دو ایشوز کا خصوصی طور پر بہت فائدہ اٹھایا۔ اس نے امریکی نیشنلزم کو ابھارا اور غیر قانونی تارکین وطن کی طوفانی آمد کو مقامی آبادی کے لئے انتہائی خطرہ قرار دیا اور مقامی امریکی کی بے روزگاری کا سبب انہی تارکین وطن کو قرار دیا اور اسکے خلاف اقتدار ملنے کی صورت میں سخت سے سخت اقدامات کرنے کا وعدہ کیا اور اپنے بارڈرز کو سخت کرنے کا اعلان کیا۔ یہ وہ نعرے تھے، جن سے عام امریکی گورا متاثر ہوا اور انہوں نے بہت کم عرصے میں اپنی آرا کو ٹرمپ کے حق میں استوار کیا۔ ٹرمپ نے مڈل ایسٹ میں فوری امن قائم کرنے کا وعدہ کیا، یوکرین جنگ کے ختم کرانے کو اپنے اقتدار کا اہم کام قرار دیا۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف سخت ایکشن کا اعلان کیا۔ تاہم ٹرمپ کے لئے اپنی طرف سے اور اپنے لئے اچھی خبر یہ ہوگی کہ وہ پچھلے دور میں اپنے خلاف بنائے گئے مقدمات کا اپنی ہی جنبش قلم سے ختم کر دے گا۔ اس میں رئل مارلیگوسٹیٹ میں خفیہ فائلیں رکھنے کا کیس، 2020میں جارجیا میں الیکشن میں دھاندلی کا کیس، ریڈہل پر حملے کا کیس وغیرہ شامل ہیں لیکن اب جسٹس ڈپارٹمنٹ سمجھ گیا ہے کہ ٹرمپ کے جیتنے کے بعد کوئی بھی کیس باقی نہیں رہے گا۔ البتہ ٹرمپ نے اسرائیل اور یوکرین کو فنڈنگ روکنے کا جو اعلان کیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا امریکی اسٹبلشمنٹ اسے ایسا کرنے دے گی یا نہیں۔ امریکی ریاست ایک جنگجو ریاست ہے، جنگ عظیم دوئم کے بعد اگر دنیا میں ہونے والی تمام جنگوں کا جائزہ لیں تو ہمیں ان کے پیچھے امریکہ نظر آتا ہے۔ اب جنگوں کی اتنی شوقین ریاست یہ چار سال جنگوں کے بغیر کیسے گزاریں گے، یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب وقت ہی دے گا معیشت کیسے سنبھلے گی ایلن مسک کیا منصوبے لے کر آئے گا یہ سب جلد پتہ چلنا شروع ہو جائے گا۔