روزن آشنائی … تنویر زمان خان، لندن آج کے پاکستان کے سیاسی ورکرز کے سامنے اگر حسن ناصر اور اس کی کمٹمنٹ کا ذکر کریں تو انہیں کچھ پتہ نہیں کہ ہم پرانے سیاسی ورکر کہیں حسن ناصر کی کون سی جدوجہد کا ذکر کر رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں کئی دہائیوں سے طلبہ یونینوں پر پابندی کے باعث نیا خون شامل نہیں ہو رہا جو سیاسی ورکر تیار ہورہا ہے وہ شخصی وفاداریوں کی نذر ہوچکا ہے۔ نظریات اور فلسفوں پر بحث کو آج کے نوجوان اور سیاسی ورکر پاگل پن کی علامت سمجھتے ہیں۔ سماج کو تبدیل کرنے کے جو خواب ہمارے زمانہ طالب علمی کے اس دور میں نوجوانوں میں زبان زد وعام ہوا کرتے تھے، اب وہ چیز نوجوانوں میں ناپید ہو چکی ہے۔ اب ایک طرف تو ڈیجیٹل اورتیز رفتاری کا دور ہے، دوسری طرف علم و فہم میں سنجیدگی اور گہرائی بالکل ناپید ہے۔ آج ہم حسن ناصر کو یاد کرتے ہیں تو اس کی قربانی اور جدوجہد کا ذکر اسے بہت بلندی پر لے جا کھڑا کرتا ہے۔ 13نومبر کو حسن ناصر کی 64ویں برسی تھی جب اسے 1960میں ایوب آمریت نے لاہور کے شاہی قلعے میں تشدد کرکے شہید کر ڈالا لیکن نہ تو جبر اسے گمنام کرسکا، نہ ہی اس کی جلائی مشعل کو گل کرسکا۔ اس کی راہ پر بعد میں چلنے والوں میں نذیر عباسی، حمید بلوچ، ناصر بلوچ، ایازسموں اور مشال خان ہیں جنہوں نے آخر دم تک ایمانداری، امن، آزادی اور سماجی انصاف کا علم بلند رکھا۔ حسن ناصر کی والدہ حیدرآباد دکن سے لاہور فقط اپنے بیٹے کی لاش وصول کرنے آئی، جسے ملٹری حکام نے خودکشی قرار دیا تھا۔ جب فوجی حکام نے حسن ناصر کی والدہ کو اس کے بیٹے کی لاش دکھائی تو اس کی ماں نے اس مسخ شدہ لاش کو اپنا بیٹا ماننے سے انکار کردیا کیونکہ جو لاش دکھائی گئی اس کا چہرہ اور جسم اتنا مسخ ہوچکا تھا کہ کہیں سے بھی ماں کی پہچان میں نہ آیا۔ حسن ناصر مسلم لیگ کے بانی رکن نواب محسن الملک کا نواسہ تھا،اس نے گرامر اسکول سے سینئر کیمرج کیا اور پھر اس زمانے کی علی گڑھ میں مخصوص نشست پر داخلہ لیا۔ تعلیم حاصل کی لیکن اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انگلینڈ تعلیم کے لئے گیا جہاں اس کی ملاقات کچھ مارکسسٹ مفکرین سے ہوئی جب وہ انگلینڈ سے واپس آیا تو اس نے اپنے طبقاتی پس منظر کے برعکس انگریز سامراج کے خلاف چلنے والی کسان تحریک میں شمولیت اختیار کر لی جنہوں نے اس دور میں وہاں کمیون بنالئےتھےلیکنلئےتھےلیکن جب بٹوارہ ہوا تو انڈین فورسز نےنظام کی حکمرانی کو توڑ ڈالا اور وہاں انگریز کے خلاف چلنے والی آزادی کی تحریک جسے کمیونسٹ چلا رہے تھے، کمزور پڑنا شروع ہوگئی کیونکہ وہاں فوجیوں نے کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ آرمی نے کمیونسٹ گوریلا گروپس کو مسمار کرنے کا تہیہ کرلیا۔ جس کی وجہ سے حسن نے فیصلہ کیا کہ وہ انڈیاسےپاکستان نقل مکانی کرلے۔ 1950 میں اس نے کراچی پہنچ کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا اور کمیونسٹ لیڈر کے طور پر اپنا تن من دھن سب وقف کردیا۔ اس کی طالبعلم سیاست میں تیز سرگرمیا ںپاکستان کی دائیں بازو کی سیاست والے ملاں ذہنیت افراد کو بہت چبھنے لگ گئی تھی۔ حسن ناصر نے اپنے اپر کلاس فیملی پس منظر کے باوجود خود کو پسے ہوئے طبقات کے ساتھ جوڑے رکھا۔ 1954میں جب پاکستان میں بہت سے کمیونسٹوں کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی بھی عائد کردی گئی تھی، اس وقت حسن ناصر کو گرفتار کیا گیا اور قید میں انتہائی تشدد بھی کیا گیا اور پھر اسے جبری طور پر انڈیا بھیج دیا گیا لیکن وہاں ایک سال بعد وہ انڈین قید سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور واپس پاکستان آگیا۔ اس کے انڈیا میں قید کے دوران وہاں موجود کئی کمیونسٹ رہنماؤں سے ملاقات رہی جس نےاس کے اندر کے انقلابی کو مزید نکھار دیا۔ پاکستان پہنچا تو کمیونسٹ پارٹی کے لوگوں اور دیگر لیفٹ گروپوں سے مل کر نیشنل عو می پارٹی بن چکی تھی۔ حسن ناصر اس کے آفس سیکرٹری کے طورپر کام کرنے لگ گیا۔ 1960 میں اسے دوبارہ گرفتار کیا گیا جہاں اسے کراچی سے لاہور قلعے میں منتقل کیا گیا اور قلعے میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ وہ شہید ہوگیا۔ پھر جلدی جلدی میں پولیس نے اس کی لاش کو دفن کردیا۔ اس کی شہادت پر ملک بھر میں طلبہ اور مزدورروں نے شدید مظاہرے کئے جو ایوبی آمریت سے ختم نہیں ہو پا رہے تھے۔ انہیں کہنا پڑا کہ حسن ناصر نے خود کشی کی ہے کیونکہ حکومت اسے انقلابیوں کا شہید نہیں بنانا چاتی تھی، اسے لاہور کے شاہی قلعے کے عقوبت خانوں میں جہاں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، اب اس سیل کی کوئی نشانی موجود نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ ابھی اس سیل کی ایک دیوار میں ایک کھڑکی بھی موجود ہے، وہ تاحال قائم ہے تاہم انارکلی پولیس نے حسن ناصر کی لاش کو کسی نامعلوم جگہ پر دفن کردیا جس کا آج تک معلوم نہیں ہوسکا۔