• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکٹرانک جنگ، روس نے مہنگے ہتھیار ناکارہ بناکر ’’نیٹو افواج‘‘ کو حیران کردیا

فروری 2022میں روس اور یوکرین کے جنگ کے آغاز کے بعد سے حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر سب سے زیادہ ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یوکرین نے روس پر 80سے زائد ڈرون حملے کیے ہیں جن میں سے کچھ کا نشانہ دارالحکومت ماسکو تھا۔ جبکہ روس نے 140سے زائد ڈرون حملوں میں یوکرین کو نشانہ بنایا۔ ہتھیاروں کے طور پر ڈرون کے بہت زیادہ استعمال نے اس تنازعے میں ایک طرح سے جنگی انقلاب برپا کیا ہے۔ جدید اسلحے، بھاری توپ خانے کے ساتھ ساتھ ڈرونز بھی میدان جنگ میں دشمن کی فوج کو پسپا کرنے میں ایک بہت مؤثر ہتھیار ثابت ہوئے ہیں۔ ڈرونز: میدان جنگ میں ’’آنکھیں‘‘۔ سکاٹ لینڈ کی سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں وار سٹیڈیز کے پروفیسر فلپس اوبرائن کے مطابق ڈرونز یوکرین جنگ میں ایک اہم ہتھیار بن چکے ہیں اور اس نے لڑائی کے طریقے کو بہت حد تک متاثر کیا ہے۔ نگرانی کرنے والے ڈرون میدان جنگ میں اگلے مورچوں پر فوجیوں کی نقل و حرکت یا ان کی حملے کی تیاریوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ڈرون نگرانی کے دوران جب وہ کسی ہدف کو دیکھتے ہیں تو وہ اس کے مقام کے بارے میں اطلاع فوج کے کمانڈ سینٹر بھیج سکتے ہیں جو ان معلومات کی بنیاد پر توپ خانے کو حملے کا حکم دے سکتا ہے۔ پروفیسر او برائن کہتے ہیں کہ فوجی زبان میں ڈرون کے ذریعے کسی بھی ہدف کو دیکھنے سے اس کو نشانہ بنانے کا عمل ’’کل چین‘‘ کہلاتا ہے اور ڈرونز کے استعمال میں اس عمل میں بہت تیزی دیکھی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ڈرونز کی مدد سے تقریباً تمام اہداف کو اس وقت تک دیکھا جا سکتا ہے جب تک کہ وہ اچھی طرح سے چھپائی گئی نہ ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ بڑے پیمانے پر ٹینکوں اور دیگر ہتھیاروں سے پیش قدمی کرتے ہوئے خود کو حملے سے نہیں بچا سکتے‘‘۔ جبکہ حملہ آور ڈورنز کو دشمن پر حملہ کرنے کے لیے توپ خانے کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یوکرینی فوج روس کے ٹینکوں کے دستے کو ڈرونز سے نشانہ بنا کر ان کی پیش قدمی کو روکنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس جنگ کے آغاز پر یوکرین نے ترکی ساختہ ٹی بی2 بیرکتار نامی ڈرونز کا استعمال کیا تھا۔ یہ عسکری ڈرونز میزائل فائر کرنے اور بم گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم اب روس اور یوکرین دونوں نے قدرے سستے ’’کامیکازی‘‘ ڈرونز کا استعمال شروع کیا ہے۔ عموماً یہ کمرشل نوعیت کے ڈرونز ہیں جن کے ساتھ دھماکہ خیز مواد باندھ کر اڑایا جاتا ہے۔ انھیں کچھ کلومیٹر فاصلے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور یہ ہدف کو نشانہ بنانے سے پہلے اس پر فضا میں معلق بھی ہو سکتے ہیں۔ روس بھی یوکرین میں عسکری اور شہری اہداف جو نشانہ بنانے کے لیے ہزاروں کامیکازی ڈرونز کا استعمال کر رہا ہے جن میں ایرانی ساختہ شاہد 136نامی ڈرون شامل ہے۔ روس اکثر انھیں یوکرین کے فضائی دفاعی نظام کو متاثر کرنے یا مفلوج کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انھیں جتھوں کی صورت میں اڑاتا ہے۔ یوکرین جنگ میں جن ہتھیاروں کا استعمال سب سے زیادہ کیا گیا ہے وہ توپ خانہ ہے۔ برطانیہ میں قائم ایک تھنک ٹینک رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹیٹیوٹ (روسی) کے مطابق روس روزانہ تقریباً 10 ہزار گولے یوکرین پر برسا رہا ہے جبکہ یوکرین دو ہزار سے 2500گولے روس پر پھینک رہا ہے۔ توپ خانے کو مسلسل دشمن کے فوجی دستوں کی نقل و حرکت کو روکنے اور بکتر بند گاڑیوں، دفاعی سازو سامان اور کمانڈ چوکیوں اور سپلائی ڈپوؤں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بی بی سی کے توپ خانے سے متعلق عسکری ماہر کرنل پیٹرو پیاتاکوف کا کہنا ہےکہ ’’جنگ کے دوران گولہ بارود پانی کی طرح یا کسی کار میں پیٹرول کی طرح استعمال کیا جاتا ہے‘‘۔ دونوں ممالک نے اب تک لاکھوں گولے باہر سے منگوا کر استعمال کیے ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک یوکرین کو گولہ بارود فراہم کر رہے ہیں جبکہ روس شمالی کوریا سے گولہ بارود حاصل کر رہا ہے۔ الیکٹرانک وار فیئر: مہنگے ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے کا سستا طریقہ:روس یوکرین جنگ میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ الیکٹرانک طریقہ جنگ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس طریقہ میں تکنیکی ماہر الیکٹرانک طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے دشمن کے میزائلوں یا ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ روس اور یوکرین جنگ میں ہر طرف ہزاروں فوجی ماہر یونٹس میں کام کر رہے ہیں جو دشمن کے ڈرونز اور مواصلاتی نظام کو ناکارہ بنانے اور دشمن کے میزائلوں کو ہدف سے ہٹانے کوشش کر رہے ہیں۔ روسی فوج کے پاس ذہٹیل جیسے الیکٹرانک نظام موجود ہیں جو 10کلومیٹر سے زیادہ کے علاقے میں تمام سیٹلائٹ کمیونیکیشنز، ریڈیو کمیونیکیشنز اور موبائل فون سگنلز کو غیر فعال یا جام کر سکتے ہیں۔ یہ نظام ’’الیکٹرو میگنیٹک‘‘ توانائی کی بڑی لہریں پیدا کرتا ہے جو ریڈیو لہروں کو مفلوج کر دیتا ہے۔ اسی طرح شپووینک ایرو یونٹ نامی نظام کی مدد سے روسی فواج 10 کلومیٹر کی دوری سے ڈرونز کو گرا سکتی ہیں۔ یہ نظام نہ صرف ڈرون مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ ڈرونز پائلٹوں کے مقام کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مقام کے متعلق آرٹلری کو اطلاع کر سکتا ہے۔ لندن کے کنگز کالج کے شعبہ وار سٹڈیز کی ڈاکٹر مارینا میرون کے مطابق مغربی ممالک یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان سسٹمز کا استعمال کرتے ہوئے روس نے کتنی آسانی سے یوکرین میں ہیمارز جیسے جدید میزائلوں کو ناکارہ بنا دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ ایک غیر روایتی یا غیر متوازن جنگی حکمت عملی ہے، نیٹو افواج کے پاس شاید ایسے ہتھیار ہوں جو تکنیکی اعتبار سے روس سے بہتر ہیں لیکن روس نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ نسبتاً کم قیمت کٹ کا استعمال کر کے ان کو ناکارہ بنا سکتا ہے‘‘۔ لندن کے کنگز کالج کے فری مین ائیر اینڈ سپیس انسٹیٹیوٹ کے ڈنکن مکروری کہتے ہیں کہ نیٹو ممالک کے فوجی سربراہان کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ روس یوکرین میں اپنی الیکٹرانک جنگ کیسے لڑ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’انھوں اپنے فوجیوں کو اس چیز کی تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ جب ڈرونز سے نشانہ بنایا جا رہا ہو اور جب دشمن ہر بھیجے گئے پیغام کو سننے کی صلاحیت رکھتا ہو تو کیسے لڑائی لڑتے رہنا ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’الیکٹرانک وار فیئر اب کوئی بعد میں آنے والی سوچ یا خیال نہیں ہے۔ اس کو اس وقت ہی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے جب آپ اپنی جنگی حکمت عملی مرتب کر رہے ہیں، اپنے فوجیوں کی تربیت کر رہے ہیں یا جدید ہتھیار تیار کر رہے ہیں‘‘۔ (بشکریہ۔۔بی سی سی … لندن)
یورپ سے سے مزید