حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن زمانہ تو یہ فیض کا ہے مگر افسوس ہے یہ کہ فیض ہم میں نہیں ہیں جبکہ دو تمام فیض کے نام ہوئے۔ گردش ایام حالات کا وہ پہیہ ہوتا ہے جو انسان کے مختلف پہلوؤؒں اور زمانوں میں اسے گھماتا رہتاہے، یہی پہلو اور زمانے اسے کبھی وارفتگی کی جانب لے جاتے ہیں اور کبھی پختگی کی طرف لے جاتے ہیں۔ رجائیت، غنائیت، انقلاب اور انسانیت، یہ تمام انسانی شخصیت کے ایسے عناصر ہیں جو انسان کو لطیف سی رومانویت اور کومل سی غنائیت، انقلابی ذہنیت اور انسانیت گزیدہ بنا دیتے ہیں۔ پھر یہ تمام پہلو جب تدریجی نظر سے دیکھیں تو ایک شخصیت ذہن کے کینوس پر ابھرتی ہے جو بلاشبہ فیض احمد فیض کی ہوتی ہے۔ رومانویت، انقلابی ذہنیت اور انسانیت فیض صاحب کی شخصیت سے اس قدر مربوط عناصر ہیں کہ اگر کسی ایک کو ان کی شخصیت سے الگ کر دیں تو انفرادیت دھندلا سی جاتی ہے۔ یہ ہی انفرادیت فیض کو بام عروج تک لے کر گئی پھر یہی بام عروج فیض صاحب کی خوش قسمتی ثابت ہوا۔ ان کی بے پناہ شہرت عزت بنی، ان کی انقلابی ذہنیت ان کی عظمت ثابت کرگئی۔ ہم نے عرض کیا کہ گردش ایام حالات کی وہ گردش ہوتی ہے جو ایک سنخور کو مختلف مراحل کی سیر کراتی ہے۔ تو شاعری کے دبستان فیض بھی ہمیں اپنے قلم ہی کے ذریعے جانے زندگی کے کئی مراحل اور مختلف پہلوؤں کی سیر کرا چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ: ہم پرورش لوح و قوم کرتے رہیں گے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے جیسا کہ بیاں ہے کہ فیض نے رومان، رجائیت اور انقلاب کی کشمکش میں بھی اپنے شعور کے تسلسل کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ مگر بعض مرتبہ ایک حساس شاعر ایسی کشمکش میں صحیح فیصلے سے عاری ہوتا ہے۔ تھبی تو لکھنے والوں نے چند الفاظ کو فیض ہی کی ذات کا حصہ بنا ڈالا جو فیض کل پلٹ پڑنے، بڑھنے اور پھرپلٹنے میں معاون ہیں۔ وہ الفاظ ہیں:’’غم جاناں اور غم دوران‘‘۔ تبھی کہتے ہیں فیض صاحب کہ: مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے دوسرے الفاظ فیض نے جو برصغیر پاک و ہند میں لوگوں کے ادراک میں اضافے کیلئے عطا کئے ہیں وہ یہ ہیں: ’’کوئے یار اور سوئے دار‘‘۔ دیکھا جائے تو فیض نے اپنی شاعری سے ایک جہان کو آگہی عطا کردی کہ انقلاب اناالحق کے نعرے سے علاوہ جذبات کی پختگی اور ثابت قدمی سے آیا کرتا ہے۔ ’’کوئے یار اور سوئے دار‘‘ کی تشریح عشق کا درد اور جبر و استحصال کی کٹھنائیاں ہیں جو آپس میں مدغم ہو کر انقلاب بپا کرتی ہیں۔ فیض نے یہ پہلو نہایت خوبصورت لب و لہجے سے ہم آہنگ کرکے احساس و ادراک کو نیا ولولہ و جوش عطا کردیا۔ فیض نے خود بھی ’’کوئے یار اور سوئے دار‘‘ کی حشر سامانیاں سہی ہیں جہاں دارو رسن کا مزہ چکھا وہیں کوئے یار کی رعنائیاں اور رنگینی سے بھی خود کو محظوظ کیا۔ یعنی دارو رسن کے قصے سے پہلے آپ عشق فرما چکے تھے پھر ناکامیٔ عشق کے بعد فیض صاحب کوئے یار سے نکل کر ہجرت بھی کرگئے تھے۔ ان کے پہلے عشق نے ہم سبھی کو فیض صاحب کے متعلق عموماً ان کے کلام جو غالباً ان کی آفاقی شاعری ہے جس نے ہر دور کے قاری کو متاثر کیا۔ اردو ادب میں جن ناموں کا شہرہ ہے فیض ان میں نامور ترین ہیں کہ دھیمے لہجے میں بھی انقلابی قسم کی ہلچل مچا دیتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں فیض صاحب کی انسانیت کی کہ جی میں آئے کہ کاش ہم بھی فیض صاحب سے ملے ہوتے یہ سعادت ہمارے نصیب میں بھی ہوتی۔ حسین مجروح ہمارے عہدکے ایک ممتاز دانشور اور اردو ادب کی قدآور شخصیت ہیں انہیں فیض صاحب کی سنگت نصیب ہوئی، وہ فرماتے ہیں کہ فیض صاحب ایسے درد دل کشا رکھنے والے تھے کہ ہمیں ان کی محفل میں کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ فیض ایک عہد کے بڑے شاعر ہیں ۔وہ ہمیں کبھی بھی بڑے چھوٹے کا احساس نہ ہونے دیتے تھے۔ وہ گفتگو کرتے تھے تو ہماری سطح پر آکر کرتے تھے، وہ احساس نہ ہونے دیتے تھے کہ ان کی گفتگو سے ہم لوگ فیض حاصل کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’بھئی، یہ تو دوستوں کے درمیان مکالمہ ہے‘‘۔ مگر مجروح صاحب کہتے ہیں کہ ہم کہاں ان کی دوستی کے اہل تھے لیکن وہ اپنے چھوٹوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ہم جب بھی ان سے ملاقات کرنے جاتے تو پوچھا کرتے، ’’ہاں بھئی کیا لکھا پڑھا جا رہا ہے‘‘۔ تو ہم کہتے، ’’فیض صاحب ہم تو آپ ہی کو پڑھ رہے ہیں یا پھر دوسرے سینئرز کو پڑھ رہے ہیں‘‘۔ تو فیض صاحب برجستہ جواب دیتے کہ بھئی اگر پڑھ رہے ہو تو لکھتے بھی رہا کرو نا، بتاؤ کیا لکھا ہے ان دنوں میں؟ ہم حجاب محسوس کرتے کہ فیض صاحب کی موجودگی میں ہم کیا اپنا کچا پکا کلام سنائیں، مگر فیض صاحب اصرار کرکے ہم سے سنتے تھے ہم جھجک محسوس کرتے تو برملا کہتے کہ بھئی جھجکنے والی بات نہیں ہم بھی اسی طرح ہوا کرتے تھے۔ اور سبھی کی اسی طرح اٹھان ہوتی ہے، ہم تو ابھی تک خود کو طالب علم سمجھتے ہیں اور ابھی تک ہمارے استاد صوفی تبسم ہیں ہم جب تک انہیں کلام دکھا نہ لیں تب تک تو ہم اشاعت کیلئے بھی نہیں بھیجتے۔ یہ فیض کا بڑا پن تھا کہ وہ اعلیٰ مقام پانے کے باوجود وہ اپنی کوتاہی کا اعتراف کرتے تھے۔ آج کون سے استاد ہیں جو اپنے شاگردوں کا اتنا خیال رکھتے ہوں۔ ایک واقعہ اور کہ وہ اپنے اوپر لگے الزام کا، پروپیگنڈے کا جواب نہیں دیتے تھے، ہر تنقید کو ٹال دیا کرتے تھے۔ اگر کوئی ان کے ساتھ برا کرتے تو وہ الٹا ان کا بھلا کرنے کا سوچتے۔ اس بات پر منو بھائی انہیں منع کیا کرتے مگر فیض مٹی کا مادھو تھے تلخیوں کا جواب نہیں دیتے تھے۔