اپنے دوست سے اس نے یہ کہا: ایک تجربہ لیبارٹری میں جتنی بار بھی دہرایا جائے، نتیجہ ایک ہی نکلے گا۔ میں یہ بات ثابت کر سکتا ہوں۔ پانی کو جب بھی توڑا جائے گا تو ہائیڈروجن اور آکسیجن الگ ہو جائیں گی۔ یہ تجربہ میں فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور کئی ممالک کی لیبارٹریز میں کر چکا ہو ں۔ لیبارٹری کے کنٹرولڈ حالات میں یہ تجربہ جتنی مرتبہ بھی دہرایا جائے، نتیجہ وہی نکلے گا۔ اس نے کہا: ویسے تو یہ قول آئن سٹائن سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت ناول نگار ریٹا براؤن نے یہ تاریخی الفاظ ادا کیے تھے۔ وہ یہ کہتی ہیں: پاگل پن یہ ہے کہ آپ ایک ہی تجربہ بار باردہرائیں اور توقع یہ رکھیں کہ نتیجہ مختلف نکلے گا۔
اس کے دوست نے قہقہہ لگایا اور کہا: میرے سائنسدان بھائی یہ نتیجہ ثابت کرنے کیلئے لیبارٹری کے کنٹرولڈ حالات کی کوئی ضرورت نہیں۔ باہر نکلو اور کسی بھی کتے کوایک پتھر مار کے دیکھ لو کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔ہر دفعہ ایک ہی نتیجہ نکلے گا۔ سرِ راہ کسی بھی آدمی کو گالی دے کر دیکھ لو۔ کسی کا مذاق اڑا لو، کسی پہ قہقہہ لگا کر دیکھ لو۔باقی زندگی کیلئے وہ تمہارا دشمن بن جائے گا۔ کسی کو پتھر کی بجائے روٹی دے کر دیکھو۔ اس کانتیجہ بھی ہر دفعہ ایک ہی نکلے گا۔
ہم پاکستانی مگر ابھی تک اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔پاکستانی سیاست ایک شیطانی گول دائرے میں گھوم رہی ہے۔ معیشت کی زبان میں اسے کہتے ہیں Vicious circle۔ ایک برائی دوسری برائی کو جنم دے رہی ہوتی ہے اور دوسری برائی پہلی کو۔ یوں ایک ایسا دائرہ بن جاتاہے، جس سے نکلنا بہت مشکل ہوتاہے۔ کم پیداوار کی وجہ سے بیروزگاری اور کم آمدنی ہے اور کم آمدنی اور بے روزگاری کی وجہ سے کم پیداوار ہے۔یہ میں سادہ الفاظ میں سمجھانے کیلئے کہہ رہا ہوں ورنہ تو قرضے، قرضوں پہ سود سمیت کئی اہم عوامل موجود ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان میں اشیا کی پیداوار اس لیے مہنگی ہے کہ بجلی مہنگی ہے۔ بجلی اس لیے مہنگی ہے کہ حکمران طبقات خود بجلی پیدا کرنے میں مصروف ہیں؛لہٰذا انہوں نے جان بوجھ کر ایسے معاہدے کیے، جس میں بجلی پیداکرنے والے کارخانوں کی چاندی ہو جائے۔ سب جانتے ہیں کہ چینی میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ چینی بنانے والے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں میں دادِ شجاعت دیتے پھر رہے ہیں۔
پاکستانی سیاست کا شیطانی چکر یہ ہے کہ سیاست دان کمزور اور کرپٹ ہیں۔ یہ کمزور اور کرپٹ سیاستدان اقتدار میں آنے کیلئے طاقتوروں کی طرف دیکھتے ہیں؛چنانچہ اوّل دن سے یہ ان کے احسان تلے دبے ہوتے ہیں۔ان میں سے کئی سیاستدان وہ ہیں، جنہیں طاقتوروں نے ہی پیراشوٹ سے سیاست میں اتارا ہوتاہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ریاست میں یا تو براہِ راست مارشل لا نافذ ہوجاتاہے یا پھر طاقتور پسِ پردہ رہتے ہوئے معاملات چلاتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ طاقت کی یہ کھینچا تانی دنیا میں کب کی ختم ہو چکی کہ طاقتور لوگ پسِ آئینہ یا سرِ آئینہ رہ کر معاملات خود چلائیں۔ جمہوریت اسی لیے ایجاد کی گئی تھی۔ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ ہزاروں برس پہلے پہیہ ایجاد ہوا۔ پھر آہستہ آہستہ ہر جگہ رائج ہوا۔ اس کے بعد اگر ایک ایسی قوم دنیا کے سامنے آئے، جو ہنوز اپنے کندھے پر بوجھ اٹھا کر لے جاتی ہو۔ ساری قوم دن رات اسی کام میں مصروف رہتی ہو تو باقی اقوام اسے کس نظر سے دیکھیں گی۔ ظاہر ہے کہ ایسے ہی جیسے کسی پاگل کو دیکھا جاتاہے۔ اسکے بعد انجن ایجاد ہوا۔ جو قبائل آج بھی انجن سے بے بہرہ ہیں، آج ہم انہیں کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ ایجاد ہو چکی ہے۔ انتخابی نظام کی گڑ بڑ پر دنیا بھر میں قابو پایا جا چکا ہے۔ دنیا بھر میں دستور یہ ہے کہ الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ یا کوئی بھی ادارہ جب ایک بار اپنی آئینی طاقت سے روشناس ہو جائے تو اس عمل کو واپس نہیں الٹایا جا سکتا۔ پاکستان کی عدالتوں نے جسٹس افتخار محمد چوہدری والی تحریک میں اپنی طاقت دریافت کی۔ پھر مگر یہ طاقت ان سے واپس چھین لی گئی اور قانون دان ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصدیر بنے رہے۔
پاکستان جس Vicious circleسے گزر رہا ہے، اس کا آخری موڑ یہ ہے کہ سیاستدان بالآخر اکھٹے ہو کر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور طاقتوروں کو بیک فٹ پر لے آتے ہیں۔جیسا کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی پرویز مشرف کے خلاف اکھٹی ہوئیں۔ اس کے بعد چند سال کیلئےسیاست میں مداخلت کا سلسلہ رک جاتاہے۔ کچھ عرصے بعد مگر پھر اسی عطار کےلڑکے سے رجوع کیا جاتا ہے۔
اس دوران بڑے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں سے شہرِ اقتدار میں دھرنے دلوائے جاتے ہیں۔ایسے ہی ایک فیض آباد دھرنے کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نوٹس لیا تھا تو پھر کیسا کھیل شروع ہوا۔ خود جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل اس سارے کھیل کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ ایون فیلڈز میں نواز شریف کے فلیٹ کے باہر جو کچھ ہوتاہے، انگریز اس پہ حیرت زدہ ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر یہ شخص برا ہے تو اسے اور اس کی پارٹی کو الیکشن کے راستے باہر کر دو، ہنگامہ آرائی کیوں۔ کیا بتائیں انہیں
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہ گزر کو کیا خبر ہے
دائرے کا یہ سفر کب تک جاری رہے گا۔ اللّٰہ ہم پہ رحم کرے!