ہمارے کھلاڑی کی پارٹی کوامید ہے کہ جونہی ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں بحیثیت پریزیڈنٹ داخل ہوں گے انکے لیڈر کی رہائی کیلئے پاکستان پرکچھ نہ کچھ دباؤ ضرور ڈالیں گے، جس کیلئے یہ پارٹی ایجی ٹیشن کا ایسا ماحول تشکیل دینا چاہتی ہے جس سے پاکستان کے اندرونی معاملے میں بیرونی سیاسی و سفارتی مداخلت کا جواز پیدا ہو سکے۔ سوال یہ ہےکہ موجودہ حالات میں کیا ٹرمپ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ پاکستان پر اس نوع کا دباؤ ڈال سکیں جیسا مشرف کے دور میں صدر بش نے ڈالا تھا؟ درویش کا استدلال ہے کہ امریکا اس وقت نہ تو ایسی کسی پوزیشن میں ہے اور نہ کھلاڑی اور اسکی پارٹی سے اس کا کوئی مفاد وابستہ ہے کہ وہ اس حد تک جائے ۔ اگر کسی نوع کا کوئی امریکی مفاد ہے بھی تو وہ پاکستانی حکومت سے ہو سکتا ہے نہ کہ اپوزیشن سے۔بنگلہ دیش کے حوالے سے البتہ بیان کیا جاتا ہے کہ بائیڈن حکومت نے شیخ حسینہ کی حکومت کو ہٹانے کیلئے ایجی ٹیشن کی حمایت میں بلا واسطہ کردار ادا کیا تھا اور اب ٹرمپ اس کے برعکس جاتے دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کے موجودہ غیر منتخب چیف ایگزیکٹو محمد یونس پر ٹرمپ کی جیت کے ساتھ ہی نئے انتخابات کروانے کیلئے ایک نوع کا دباؤ محسوس کیا جا رہا ہے جسکے حوالے سے خود محمد یونس بیان بازی بھی کر رہے ہیں اور اس نوع کے دلائل بھی دے رہے ہیں کہ فی الوقت وہ انتخابات سے فرار پر کیوں مجبور ہیں۔ اس کیفیت کا بڑا کارن نریندر مودی اور ٹرمپ سے مودی کی ذہنی ہم آھنگی ہے جنہوں نے عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ کو بنگلہ دیشی حکومت کی خواہشات کے علی الرغم اپنے ملک میں ایک نوع کی سیاسی پناہ دے رکھی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک بنگلہ دیش میں نئے انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتا شیخ حسینہ کے بالمقابل موجودہ بنگلہ دیشی حکومت اپنی لیجٹیمیسی یا اپنے عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ پاکستان کا معاملہ بنگلہ دیش سے مختلف ہے، ہماری موجودہ انتظامیہ اس وقت جیسے تیسے انتخابات منعقد کروانے کے بعد ہی اقتدار کے سنگھاسن پر فائز ہے آپ لاکھ کہیں کہ یہ فارم 45 نہیں فارم47 کی پیداوار ہے، اس طرح تو اس ملک میں سوائے 70 کےباقی تمام تر انتخابات ہی دھاندلی زدہ قرار دیے جاتے ہیں۔ ہمارے کھلاڑی کی پشت پر کوئی مودی بھی نہیں ، عرب حکمرانوں سے ایسے کردار کی توقع کی جا سکتی تھی بشرطیکہ کھلاڑی کی کوئی ایسی سیاسی حیثیت یا عالمی پوزیشن ہوتی جیسی نواز شریف اور بھٹو کی تھی۔ ضیا دور میں بے نظیر کو باہر بھیجوانے کیلئے تو انڈیا سے بھی آواز اٹھی تھی اگر آپ چاہتے ہیں کہ کھلاڑی کیلئے اس نوع کی آوازیں اٹھیں یا ٹرمپ کی طرف سے موجودہ طاقتوروں پر دباؤ آئے تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ آپ لوگ اپنی سٹریٹ پاور دکھائیں اگر 9مئی جتنے لوگ بھی نہ نکلے تو کیا فائدہ آپ کے احتجاجی کال کا؟ اتنی کسمپرسی میں آپ ٹرمپ یا کسی عالمی دباؤ کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ بالفرض ٹرمپ آپ لوگوں کی حمایت میں کوئی بیان جاری بھی کر دیتے ہیں تو اس کی حیثیت رسمی ہی ہوگی، امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں یہ امر تو مسلمہ ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں کچھ اور کریں نہ کریں چائنہ کا گھیراؤ وہ بہر صورت کرنے کیلئے کوشاں رہیں گے جس کیلئے انہیں رشین صدر پیوٹن کیلئے اپنی پالیسی کتنی ہی نرم کیوں نہ کرنی پڑے ایسی صورت میں ٹرمپ چائنہ کے اتحادیوں کو توڑنے کیلئے ہر نوع کی پھونکیں ماریں گے، اگر تو ٹرمپ نے تضادستان کی قیادت کو سرد پھونکیں مارنی ہیں تو پھر آپ کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا لیکن اگر نوبت گرم پھونکوں تک چلی گئی تو اس کے ثمرات آپ لوگوں تک ضرور پہنچیں گے اس لیے بے وقت کی آخری عوامی احتجاجی کال دے کر اپنے سیاسی بھرم کا ڈراؤنا اختتام نہ کریں، اس کا کچھ نہ کچھ وزن رہنے دیں تاکہ بوقت ضرورت کام آئے، اس سے آپ کے کارکنان و سپورٹرز میں مایوسیوں کا پھیلاؤ رکا رہے گا۔ آپ لوگوں کی مشکل یہ ہے کہ آپ کا لیڈر سیاستدان نہیں سیاسی اناڑی ہے جسے سیاسی چالیں، چالاکیاں، ہوشیاریاں قطعی نہیں آتیں، اپنی جیسی تیسی پاپولیرٹی کے باوجود اتنی بڑی بڑی سیاسی ناکامیوں کی جڑ اس شخص کے یہی بلنڈرز ہیں۔ اس بیچارے کو کچھ معلوم ہی نہیں ہے کہ سیاسی وزڈم کیا ہوتا ہے، ایک منجھا ہوا سیاسی کارکن کیسے کام کرتا ہے، وہ جس وکیل کو چرب زبان محسوس کرتا ہے اسے لیڈر یا سیاستدان سمجھ کر آگے کر دیتا ہے کبھی ہمشیرہ اور کبھی اہلیہ پرتکیہ کرتا ہے کیا یہ اناڑی پن نہیں ہے؟ اس لیے درویش اسے سیاسی لیڈر مانتا ہی نہیں، نہ اس کے پریشر گروپ کو سیاسی پارٹی۔ رہ گئی امریکی صدر ٹرمپ سے وابستہ توقعات ان پر بحث کسی اور کالم میں۔