خبر آئی ہے۔’’پاکستان نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے سندہ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی یا دریائے چناب اور دریائے نیلم پر متنازع ڈیموں کی تعمیر جاری رکھی تو پاکستان اس بات کا حق محفوظ رکھتا ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر متعلقہ عالمی اداروں سے رجوع کر کے کارروائی عمل میں لائی جائے۔‘‘خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت نے حسب معمول اور حسب روایت نئی دہلی میں ہوئے سالانہ اجلاس میں ڈیم بنانے والی جگہوں کا معائنہ کرانے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ پاکستان نے بھارت کو وارننگ دی ہے کہ وہ پن بجلی منصوبے پر ہونے والے اختلافات تین ماہ کے اندر طے کرے بصورت دیگر یہ معاملہ سندھ طاس معاہدے کی دفعہ 1X)2)B کے تحت عالمی ماہرین کے سامنے پیش کیا جائے گا۔1960 میں ہونے والے سندھ طاس معاہدہ کے تحت پاکستان کو دریائے جہلم، دریائے چناب اور دریائے سندھ کے پانی کے تمام حقوق حاصل ہیں۔ایوب خان اور پنڈت نہرو کے درمیان ہونے والے اس معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ فریقین (پاک و بھارت) کا سال میں کم از کم ایک بار مل بیٹھنا ضروری ہے بھارت کو ملنے والے پانی میں سندھ طاس کے مشرقی دریاؤں ستلج بیاس اور راوی کے پانی کے استعمال کا حق حاصل ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان کا کل زیر کاشت رقبہ 35 ملین ایکڑ ہے جس میں دریائے جہلم اور دریائے چناب سے ملحقہ علاقوں کا زیر کاشت رقبہ 13 ملین ایکڑ کے قریب ہے، ان ماہرین کے مطابق موجودہ حالات میں پاکستان کو دفاعی اور اقتصادی طور پر بچانے کی واحد دفاعی لائن کشمیر ہے۔ بھارت جب چاہے پاکستان کو اقتصادی مسائل کے حوالے سے ’’ایتھوپیا‘‘ بنا سکتا ہے اسلئے کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ شہہ رگ ہے۔
بھارت کی موجودہ حکمران جماعت اور اس کےلیڈر اور فرقہ پرست رہنماؤں نے سب سے پہلے سندھ طاس معاہدہ منسوخ کر دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پاکستان کا واضح موقف دیکھتے ہوئے انہیں خاموشی اختیار کرنا پڑی مگر جیسا کہ کہتے ہیں رسی جل جاتی ہے مگر بل نہیں جاتا کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں انہی انتہا پسندوں نے اسمبلی میں یہ قرارداد پیش کی تھی کہ سندھ طاس معاہدہ پر نظر ثانی ہونی چاہیے کہ یہ معاہدہ دریائے چناب کے پانی کے استعمال کی مخالفت کرتا ہے جس سے مقبوضہ کشمیر کو ماہانہ لاکھوں روپے کا نقصان ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ موجودہ حالات میں فی الحال جنگ ہونے کا امکان نہیں ہے کارگل جیسے
واقعات بھلے ہی دہرائے جائیں لیکن مکمل جنگ کا امکان ابھی نہیں ہے اور ان دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنے کا امکان تو تقریباً صفر ہے لیکن میرے حساب سے مستقبل میں پاکستان و بھارت کے درمیان جھڑپیں ہونے کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا یہ جھڑپیں مختلف معاشی مفادات، قدرتی وسائل پر قبضہ اور پانی کیلئے ہونگی۔ گزشتہ سال ہونے والی سندھ طاس کمیشن کی سالانہ میٹنگ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس میٹنگ میں پاکستان کے چھ ماہرین نے حصہ لیا۔ یہ میٹنگ ایسے حالات میں ہوئی جب سرحدوں پر حالات اشتعال انگیز ہیں اور بھارت کے متعدد مرکزی وزراء ،آر ایس ایس کے لیڈر ،دفاعی ماہرین اور فرقہ پرست جماعتیں کھلم کھلا یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ہمیں یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ توڑ کر پاکستان کو پانی کی سپلائی بند کر دینی چاہیے ان کا خیال ہے بلکہ خام خیالی ہے کہ پاکستان کو کشمیر پر جھکنے کیلئے مجبور کرنے کا پانی کی سپلائی بند کرنے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں پاکستان میں بہنے والے پانچ بڑے دریاؤں کا رخ بحرہ عرب کی طرف ہے اور یہ صدیوں سے اسی ڈگر پر بہہ رہے ہیں ۔ان کاموڑنا، روکنا یا بندکرنا کسی طور پر بھی ممکن نہیں کہ 1960 کے معاہدہ کے تحت پاکستان کو ان کے پانیوں کا مکمل حق حاصل ہے۔ 1965اور 1971 کی جنگوں میں بھی اس معاہدے کی عمل آوری پر کوئی حرف نہیں آیا تھا لیکن آج جنگ کے بغیر ہی اس معاہدے پر یکطرفہ روک ٹوک کی تلوار لٹک رہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے(یہ تجزیہ نگار میں بھی ہوسکتا ہوں)کہ پاکستان و بھارت کشمیر پر چاہے نہ لڑیں پانی پر ضرور لڑ سکتے ہیں ،جب ہم نے تین دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی پر بھارت کا حق تسلیم کر رکھا ہے تو بھارت کو کیا حق پہنچتاہے کہ وہ ہمارے حصے میں آنیوالے تین دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم پر روک ٹوک لگانے کا سوچے۔ میرے حساب سے اسے یہاں منہ کی کھانا پڑے گی۔ ماہرین آب نے اس بات کا بھی تجزیہ کیا ہے کہ بھارت نے اگر چھیڑ چھاڑ کے ذریعے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا انتہائی قدم اٹھایا یا پاکستان کا پانی بند کیا تو اسے فوری طور پر ایسےاقدام کا نہ صرف کوئی فائدہ نہ ہوگا بلکہ وہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی ہو جائے گا کہ کسی ملک کا پانی بند کرنا عالمی قانون کے مطابق بذات خود ایک عمل جنگ (Act of war ) ہے اسلئے میں اپنی اس امید میں حق بجانب ہوںکہ دونوں ملکوں میں جنگ ہو یا نہ ہو کم از کم بندش آب یا منسوخی آب جیسی غیر انسانی صورتحال نہیں ہو نے دی جائیگی۔
ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کریں