تحریر: اسرار راجہ… لوٹن (گزشتہ سے پیوستہ) آپ کے اشعار دلوں کو گرمانے اور خوابیدہ روحوں کو بیدار کرنے کا موجب بنے تو سارے عالم اسلام میں اس کی گونج سنائی دی۔ لینن کے نام لکھی گئی آپ کی تحریر نے ایران کے اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حضرت امام خمینیؒ نے وہی خط سویت یونین کے صدر گورباچوف کو بجھوایا۔ اگر گورباچوف امام خمینیؒ کے اس خط پر عمل کرتا تو شاید سویت یونین کے عوام خوشحال اور ملک کا ڈھانچہ مزید مضبوط اور طاقتور ہوتا۔ اقبالؒ کا پیغام آفاقی ہے مگر پاکستان میں اس کی پذیرائی کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہوچکی ہے۔اقبالؒ اولین مفکر تھے جنہوں نے برصغیر میں ایک آزاد مسلم ریاست کا تصور مثبت نظریاتی اور آفاقی بنیادوں پر پیش کرتے ہوئے اسے دیگر دنیا کے لیے ایک مثالی ریاست قرار دیا۔آپ نے فرمایا کہ قومیت کا تصور دین کی بنیاد پر ہے نہ کے رنگ و نسل، حسب و نسب، لسانیت اور علاقائیت کی بنیادوں پر ہے۔ اُمت مسلمہ ایک واحدت ہے جس کا آئین قرآن اور زندگی کے ہر شعبے میں رہنما اصول سیرت رسولؐ میں درج ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بنگالی، بلوچی، پختون اور دیگر علاقوں کے عوام نے دل و جان سے اس پیغام پر عمل کیا۔ وہ نہ تو انگریزوں اور کانگرسیوں کے لالچ اور مراعات سے مرغوب ہوئے اور نہ ہی اسلام کے لبادے میں کانگرس کے حامی مقامی اور فرقہ وارانہ ذہبیت رکھنے والے علمأ کے جال میں پھنسے۔ اقبالؒ کا خطبہ الہ آباد اس سلسلے کی آخری اور اٹل کوشش ثابت ہوئی تو اقبالؒ کا تصور ایک واضح صورت میں سامنے آگیا۔ دسمبر 1930ء میں مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد کے خطبہ صدارت سے پہلے 1919ء میں علامہ اقبالؒ نے پروفیسر نکلسن کے نام ایک خط میں لکھا کہ رنگ و نسل، علاقائیت، لسانیت اور فرقہ پرستی باطل عقائد کا ثمر اور انسانی نصب العین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلام ان باطل عقائد اور انسانیت کی تقسیم اور توہین کرنے والے نظام کا سب سے بڑاحریف رہا ہے۔ آپ کے اس خط میں خطبہ حج الودعیٰ کی واضع جھلک نظر آتی ہے جسے ڈاکٹر حمید اللہ نے انسانیت کا منشور اعظم قرار دیا۔آپ لکھتے ہیں کہ بے دین دانشوروں کا یہ تصور غلط ہے کہ اسلام سائنس کا دشمن ہے۔ کیا سائنس کائنات سے الگ کوئی چیز ہے۔ سائنس کائناتی علوم کا ہی ایک حصہ ہے جس کا موجد خالق کائنات اللہ ہے۔ انسابیت کا سب سے بڑا دشمن رنگ و نسل ہے نہ کہ اسلام۔ جو لوگ انسانیت سے محبت رکھتے ہیں ان پر فرض ہے کہ وہ ابلیس کی اس اختراع کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے جہاد کا علم بلند کریں۔اقبالؒ کا یہ پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ان ساری اقوام کے لیے تھا جو مغربی استعماری قوتوں کے شکنجے میں تھیں۔ جن کےوسائل پر نسلی تعصب پر فخر کرنے والی قوتیں مختلف شیطانی چالوں اور حربوں کی مدرسے قابض تھیں۔اقبالؒ کو کامل یقین تھا کہ قائداعظمؒ کی بے لوث اور جرأت مند قیادت پر مسلمانان ہند بھروسہ کرتے ہوئے صرف نظریہ اسلام کی بنیاد پر الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ نے علامہ محمد اسد کو دلی میں پیغام پہنچایا کہ جرمن اخبار کی نوکری چھوڑ کر دلی میں مسلم لیگ کا دفتر سنبھال لو۔ علامہ محمد اسد ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب دلی میں مسلم لیگ نوابوں اور جاگیرداروں کی جماعت مشہور تھی۔ ولی اللہ کاشمیری لکھتے ہیں کہ لفظ پاکستان کا ہندو مذاق اڑاتے تھے کہ جو لوگ رولز رائیس کاروں اور بگھیوں سے نہیں اترتے اور عالیشان محلوں میں رہتے ہیں کیا وہ پاکستان بنائیں گے، علامہ محمد اسد لکھتے ہیں کہ اقبالؒ نے فرمایا کہ اجلاس باطنی میں فیصلہ ہوگیا ہے اب پاکستان بن کر رہے گا۔ یہی پیغام مولانا حسرت موہانی نے قائداعظمؒ کو دیا کہ پاکستان بن جانے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ایک موقع پر اقبالؒ نے فرمایا کہ جذبہ قوت ایمانی اور عشق رسولؐ کی حرارت کے بغیر مسلمان کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ انسانی زندگی میں جذبہ ایمانی کی حرارت اسے جذبہ عمل کی راہ دکھلاتی ہے۔ معاشی خوشحالی کے بغیر انفرادی اور اجتماعی ترقی ممکن نہیں۔ جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے اقتصادی ترقی کا ہونا بے حد ضروری ہے جس کے بغیر خودی کا تصور محال ہے۔ آسودگی کی بنیاد پر ہی آسودہ معاشرے اور ریاست کی عمارت کھڑی ہوسکتی ہے۔ آسودہ زندگی کا راستہ ہر انسان کی جبلت میں شامل ہے۔اقبالؒ کے نزدیک دنیا کا کوئی معاشرہ اقتصادی ترقی کے بغیر فلاح و بہبود کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ اقبالؒ نے فکر و عمل محنت، مزدوری، جانبازی، سر فروشی اور جہد مسلسل کو اپنے نظریے میں شامل رکھا اور اسے خودی کی بنیاد قرار دیا۔اقبالؒ یولیٹیکل اکانومی کے استاد بھی رہے ۔ آپ نے فاؤس اور واکر کی پولیٹیکل اکانومی کا اردو ترجمہ کیا۔ آپ کی دلچسپی دیکھ کر آرٹلد نے ’’علم آلاقتصاد‘‘ لکھنے کی ترغیب دی جو 1904ء میں منظر عام پر آئی۔ اقبالؒ کی یہ تحریر قرآنی معاشی، معاشرتی اور اقتصادی نظریات کی روشنی میں لکھی گئی مگر بدقسمتی سے مسلمانوں خاص کر پاکستانی دانشوروں، معاشی ماہرین اور سیاستدانوں نے ملکی معیشت تباہ کرنے اور عوام کو غربت اور جاہلیت کے اندھیروں میں دھکیلنے کے شیطانی اصولوں کو اپنایا تاکہ عوام کے منہ سے لقمہ اور جیبوں سے پیسہ نکال کر اپنے خاندانوں اور بہی خواہوں کے اندورن ملک اور بیرون ملک بینک بھرنے کا بندوبست ہوسکے۔یہ وہی پاکستان ہے جو اپنے ابتدائی دور میں جرمنی، کوریا اور جاپان جیسے ملکوں کو امداد دیتا تھا۔ اب جدید جمہوری نظام کی شاطرانہ چالوں کا نتیجہ ہے کہ ایٹمی صلاحیتوں سے لیس ملک پائی پائی کا محتاج اور عوام مفلسی کے انتہائی نچلے درجے پر فاقہ کشی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اعلیٰ اشرفیہ اور حکمران طبقہ بیرون ملک کھربوں ڈالر کے اثاثوں کا مالک ہے۔ عوام بے شعور اور حکمران ظالم اور عیاش ہیں۔ موریلی نے سچ کہا تھا کہ جس ملک کے عوام ظلم سہنے کے عادی ہوجائیں ان کی تقدیر بدلنا پتھر کی دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔ملکی وسائل غیر ملکی اداروں کے ہاتھوں نیلام کئے جا رہے ہیں۔ اور آئی ایم ایف ملک کا بجٹ بنا کر پاکستانی عوام کا خون چوسنے کی آخری حد تک پہنچ چکا ہے۔ حکمران خاندان جو پچھلے چالیس سال سے ملک پر قابض اور ملکی وسائل لوٹ رہے ہیں اب بھی عوام کو بہتر مستقبل کی نوید سنا کر اقتدار پر قابض ہیں۔(ختم شد)