لاہور(آصف محمود بٹ ) پنجاب میں جاری جیل ریفارمز کے تحت پہلی مرتبہ قیدیوں سے متعلقہ دو اہم ترین قوانین130سال پرانے ’’پرزنز ایکٹ1894‘‘ اور124سال پرانے ’’پرزنرز ایکٹ 1900‘‘میں ترامیم کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔ معتبر ذرائع نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ ان پرانے قوانین کی وجہ سے قیدیوں کےحقوق اور محکمہ جیل خانہ جات کے انتظامی معاملات میں بعض دشواریوں کا سامنا تھا جن میں ترامیم کے بعد سسٹم میں بہتری آئیگی۔ ذرائع نے بتایا کہ ’’پرزنز ایکٹ1894‘‘ میں موجودہ آئی جی جیل خانہ جات کے عہدے کو ڈائریکٹر پرزنز لکھا گیا ۔ اسی طرح محکمہ جیل پنجاب میں اس وقت تعینات ڈی آئی جیز کے عہدے کا اس قانون میں ذکر ہی نہیں ۔ ’’پرزنز ایکٹ1894‘‘ میں جس عہدے کو ’’جیلر ‘‘ لکھا گیا تھا وہ موجودہ وقت کے ڈپٹی سپرٹنڈنٹ جیل کہلاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ’’پرزنز ایکٹ1894‘‘ میں ترامیم کے بغیر ذریعے قانونی پیچیدگیوں کا حل ضروری تھا۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی طرف سے مجوزہ ترامیم ’’پرزنز ایکٹ 1894‘‘ میں ترامیم کرکے ڈائریکٹر پرزنز کو آئی جی جیل خانہ جات اور جیلر کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کے عہدوں میں تبدیل کر دیا جائیگا جبکہ نئی ترمیم کرکے ڈی آئی جی جیل خانہ جات کا عہدہ اور اس کے اختیارات بھی قانون میں شامل اور وضع کر دیئے جائیں گے۔ ’’پرزنز ایکٹ 1894‘‘ میں قیدیوں کی ایک سے دوسری جیل میں منتقلی کا اختیار صوبائی حکومت کو دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے میں جاری 2016 کے مصطفی امپیکس کیس کے فیصلے کے مطابق جہاں بھی قانون میں صوبائی حکومت لکھا گیا ہو اس کا مطلب کابینہ ہوگی۔