چند روز قبل ایک کلپ وائرل ہوا جس میں یہ بات دعوے سے بیان کی جا رہی تھی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مريم نواز کے ایک بیان کی بنا پر چین اُن سے ناراض ہو گیا ہے۔ وائرل کلپ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا نام نہیں لیا گیا بلکہ پنجاب کی ایک خاتون وزیر کہا گیا مگر کلپ میں موجود ایک شخصیت نے اس انداز میں اس’’خبر‘‘ پر بات کی کہ واضح طور پر پتا چل رہا تھا کہ یہ بات وزیر اعلیٰ مريم نواز کے حوالے سےکی جا رہی ہے۔ میں حیران رہ گیا کہ ایسا کیا کہہ دیا گیا کہ جس کی وجہ سے چین نے اس حد تک ناراضی کا اظہار کیا ہے کہ اتنے بڑے ٹی وی پروگرام تک میں ایک سفارتی مسئلہ پر ذکر کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان میں رہتے ہوئے جس اعلیٰ ترین سطح پر چین کی کسی اعلیٰ شخصیت سے کوئی غیر سرکاری حیثیت میں رابطہ قائم کر سکتا ہے اس سطح پر میں نے رابطہ قائم کیا اور ان سے اس’’خبر‘‘ کی تصدیق چاہی کہ آیا کسی بیان کے سبب چین میں ناراضی پائی جاتی ہے؟ مجھے سوالیہ انداز میں جواب دیا گیا کہ’’ ایسا کونسا بیان وزیر اعلیٰ پنجاب نے دیا ہے کہ جس پر ہم ناراض ہونگے؟ یہ خبر کسی بہت ہی کمزور ذریعے سے حاصل کر کے اڑا دی گئی ہو گی۔‘‘ میں نے کہا کہ جس صحافی نے یہ ’’خبر‘‘ دی ہے انکے حوالے سے حسن ظن یہ ہے کہ انہوں نے کسی کے کہنے پر ایسا پروپیگنڈا نہیں کیا ہوگا مگر انکی اس ’’خبر‘‘ کے علاوہ بھی محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس وقت چین اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے یہ تصور قائم کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ کسی تناؤ کا شکار ہو گئے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں ایک معروف غیر ملکی خبر رساں ادارے نے بھی ایک پوری اسٹوری گھڑ کر چلا دی تھی کہ پاکستان اور چین میں سفارتی سطح پر کشیدگی ہے اور اسکی وجوہات بھی بیان کر دی تھیں۔ وزیر اعلیٰ مريم کے حوالے سے جب میں نے استفسار کیا تو مجھے مزید کہا گیا کہ انکے حوالے سے تو اس وقت بیجنگ میں تیاریاں جاری ہیں کہ وہ عنقریب بیجنگ میں اسٹیٹ کی سطح کے دورے پر آ رہی ہیں بلکہ مجھ سے معلوم کیا گیا کہ انکا اسٹاف انکے متوقع دورہ چین کے حوالے سے کس قدر تیاریاں کر رہا ہے؟‘‘ میری رائے میں مريم نواز کو چین میں اپنی مصروفیات صرف معمول کی سرکاری سرگرميوں تک محدود نہیں رکھنی چاہئیں۔ چین سمیت دنیا ان کو بہت اہم حیثیت میں دیکھ رہی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ عالمی امور، جن سے پاکستان کا براہ راست تعلق ہے،کے حوالے سے انکے خیالات و ترجیحات سے آگاہ ہو۔اسلئے وزیر اعلیٰ مريم نواز کے دورہ بیجنگ میں پاکستان اسٹڈی سینٹرز اور مختلف تھنک ٹینکس میں انکے خطابات ہونے چاہئیں تا کہ انکے ورلڈ ویو سے آگاہی ہو ۔ اس دورے میں اس حوالے سے فوری طور پر تمام تفصیلات طے ہونی چاہئیں۔ یہ اقدامات ہر طرح کی ناراضی یا سفارتی کشیدگی کے بیانیے کو بھی مات دیدیں گے۔ پاکستان نے ویسے ہی ایس سی او کانفرنس کے انعقاد اور اب بیلا روس کے صدر کی آمد کی بدولت اپنی اہمیت کا تاثر قائم کیا ہے ۔ بیلا روس سے پاکستان کے سفارتی تعلقات 2014ءمیں قائم ہوئے تھے جو پھر دفاعی امور تک بھی بڑھنے لگے اور بیلا روس- پاکستان پارٹنر شپ پر 29مئی 2015ءکو دستخط ہوئے اور پہلی بار بیلا روس کے صدر نے دورہ پاکستان کیا جبکہ دونوں ممالک کے مابین ٹریٹی آن فرینڈ شپ اینڈ کوآپریشن پر 10اگست 2015ء کودستخط کئے گئے بعد میں نواز شریف پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے جنہوں نے بیلا روس کا دورہ کیا اور اب انکے صدر ان حالات میں پاکستان تشریف لائے کہ سیاسی درجہ حرارت بہت بڑھا ہوا تھا۔ پھر ساتھ ہی ساتھ جب دنیا کرم ایجنسی میں ہونے والے درد ناک واقعات دیکھ رہی ہے تو اس سے ایس سی او کانفرنس کا انعقاد ہو یا بیلا روس کے صدر کا دورہ سب کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ جب گزشتہ اکتوبر میں اسی سڑک پر گاڑیوں کے قافلے پر حملہ کیا گیا تھا تو اس وقت ہی یہ یقین ہو چلا تھا کہ پارا چنار کرم ایجنسی کے حالات کو بگاڑنے کی کوئی سازش پنپ رہی ہے جو اب مزید واقعات کے ساتھ آشکارہو چکی ہے ۔ کے پی حکومت نے اکتوبر کے واقعہ کے بعد ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کئے؟ یہ بات تو طے ہے کہ جب گزشتہ پی ٹی آئی حکومت میں ہزاروں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو واپس آنے دیا گیا اور وہ ’’فتح ‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے واپس آئے تو اسکے بعد ایسے واقعات نے تو ظہور پذیر ہونا ہی تھا۔ میں پی ٹی آئی دور کی اس پالیسی کا اسلئے پہلے دن سے مخالف تھا کہ ہر آنکھیں رکھنے والا جانتا تھا کہ اسکے کیا نتائج برآمد ہونگے۔ ماضی میں 2005ء، 2006ءکے دوران مشرف حکومت نے ان لوگوں سے تین معاہدات کئے، اسی طرح 2006ءکے معاہدہ کے بعد 132 دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کیا گیا، جنرل مشرف نے ان معاہدات کو ’’اچیومنٹ‘‘ اور افغانستان کیلئے قابل تقلید ماڈل قرار دیا مگر پھر کیا ہوا بس خون سے زمین رنگین ہوتی چلی گئی۔ اسلئے جب عمران خان اور جنرل باجوہ یہ معاہدہ کر رہے تھے تو اہل نظر سے مستقبل پوشیدہ نہیں تھا۔ اسلئے کے پی کی صوبائی حکومت سے تو اس حوالے سے کسی خیر کی توقع نہیں ہے مگر اس موقع پر وفاقی حکومت بھی صرف مذمت کرکے جان نہیں چھڑا سکتی کیونکہ شہریوں کی جان مال کی حفاظت کی آئینی ذمہ داری بہر حال وفاقی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ یہ کوئی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہیں بلکہ جب حالیہ واقعات میں گاڑیوں پر حملہ ہوا تو نشانہ بننے والوں نے قریبی آبادیوں کے گھروں میں پناہ لی حالانکہ پناہ دینے والے انکے ہم مسلک نہیں تھے۔ معاملات کو حقیقی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ صرف فرقہ وارانہ فسادات کی عینک سے دیکھا گیا تو جنہوں نے یہ واقعات کئے ہیں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائینگے۔ 2007ءمیں پارا چنار کے 72قبائلی مشران نے پانچ نکاتی معاہدہ مری کیا تھا اس کی بنیاد پر اب بھی امن قائم ہو سکتا ہے ۔ اس کیساتھ ساتھ کرم ملیشیا اور ٹل اسکاؤٹس کو بھی مکمل فعال اور با اختیار کیا جائے جبکہ ان کے بیک اپ کے طور پر فوج موجود ہو ، اس طرح یہ آگ بجھائی جا سکتی ہے۔